• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جا دفعہ ہو جا، میں تجھے نہیں رکھتا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے لڑائی جھگڑا کرتے ہوئے کہا کہ ’’جا دفعہ ہو جا، میں تجھے نہیں رکھتا‘‘۔ یہ سارا معاملہ غصہ کی حالت میں کیا، پھر صبح کو اپنی بیوی کے ساتھ صحیح طریقے سے رہن سہن شروع کر دیا۔ شریعت میں اس کا کیا حکم؟ جواب عنایت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عورت کے حق میں ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے۔ دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔ بغیر نکاح کیے اکٹھے رہنا جائز نہیں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ شوہر نے مذکورہ صورت میں تین جملے بولے ہیں: (1) جا، (2) دفعہ ہو جا، (3) میں تجھے نہیں رکھتا۔

2-1 یعنی ’’جا، دفعہ ہو جا‘‘ یہ دونوں جملے کنایات کی پہلی قسم میں سے ہیں یعنی ان الفاظ میں سے ہیں جو ردّ و جواب دونوں کا احتمال رکھتے ہیں جیسے ’’اخرجي، اذهبي‘‘ یہ دونوں جملے طلاق کے واقع ہونے میں ہر حال میں نیت کے محتاج ہیں۔ لہذا یہ الفاظ بولتے ہوئے اگر طلاق کی نیت کی تھی تو طلاق واقع ہو گئی ورنہ ان دونوں جملوں سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔

3۔ یعنی’’میں تجھے نہیں رکھتا‘‘ یہ جملہ کنایات کی تیسری قسم میں سے ہے۔ یعنی وہ الفاظ جو صرف جواب کا احتمال رکھتے ہیں جیسے ’’اعتدي و استبرءي‘‘ وغیرہ یہ الفاظ غصہ کی حالت میں کہے ہوں تو ان سے بغیر نیت کے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں ان الفاظ کے کہنے سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی۔

لیکن چونکہ  یہ بھی ایک ضابطہ ہے کہ دوسری بائنہ طلاق اگر کنائی الفاظ سے ہو تو وہ پہلی بائنہ طلاق کے ساتھ شمار نہیں ہوتی۔ لہذا اگر پہلے الفاظ یعنی ’’جا، دفعہ ہو جا‘‘ بولتے ہوئے طلاق کی نیت تھی تو پہلے ہی لفظ سے ایک بائنہ طلاق ہو گئی اور باقی دو لفظوں سے کوئی نئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اور اگر ان الفاظ کو بولتے ہوئے طلاق کی نیت نہیں تھی تو پہلے دو جملوں سے تو اگرچہ طلاق نہیں ہوئی لیکن تیسرے جملے سے طلاق ہو گئی۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے۔

فتاویٰ شامی  (4/ 521)میں ہے:

في الدر: و الكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا و لا، فنحو اخرجي و اذهبي و قومي …… تحتمل ردّاً و نحو خلية، برية حرام … بائن و مرادفها كبتة بتلة يصلح سباً  نحو اعتدي، و استبرءي رحمك … لا يحتمل السب و الرد …. تتوقف الأقسام الثلاثة تأثيراً على نية للاحتمال و القول له بيمينه في عدم النية…. و في الغضب توقف الأولان إن نوى وقع و إلا لا. و قال الشامي تحت قوله (توقف الأولان) أي ما يصلح ردا و جواباً و ما يصلح سباً و جواباً و لا يتوقف ما يتعين للجواب، بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد و التبعيد و للسب و الشتم كما تصلح للطلاق و ألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضاً. فصار الظاهر فيصدق في القضاء بخلاف ألفاظ الأخير أي ما يتعين للجواب لأنها و إن احتملت الطلاق وغيره أيضاً لكنها لما زال عنها احتمال الرد و التبعيد و السب و الشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال دالة على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهراً، فلا يصدق في العرف عن الظاهر فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق.

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (4/ 531) ہے:

لا يلحق البائن البائن إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول. قال الشامي تحت قوله (لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق ………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved