• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"دفع ہوجا، جو اچھا شوہر ملے اس کے پاس چلی جا”

استفتاء

1۔ زید نے غصے میں بیوی کو کہا کہ ” دفع ہوجا” مقصود تھا کہ وہ اپنی ذلت محسوس کرے۔

2۔ بیوی نے کسی کام کے نہ ہونے کی مسلسل شکایت کی تو تنگ آکر غصے میں کہا ” جو  اچھا شوہر ملے اس کے پاس چلی جا” اور دل میں خیال کیا کہ طلاق مقصو د نہیں بلکہ س بیوی کو شرم دلائی جائے۔ بیوی کو غصے میں کہا تیرے والد سے بات کرتا ہوں کہ "تجھے تیری مرضی کے شوہر سے بیاہ دے”۔

معلوم  تھا کہ ایسا ہو نہیں ہو سکتا، صرف بیوی کو جلانا مقصود تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زیر نظر مسئلے میں طلاق کا احتمال رکھنے والے دو جملے ہیں:

1۔ دفع ہوجا۔

2۔ جو اچھا شوہر ملے اس کے پاس چلی جا۔

ان میں سے پہلا جملہ کنایہ ی قسم اول ہے جو ما یحتمل الرد و الطلاق ہوتا ہے۔ اس میں ہر حال  میں وقوع طلاق کے لیے نیت درکار ہوتی ہے۔ اور مذکورہ صورت میں چونکہ نیت نہیں تھی اس لیے اس جملے سے طلاق واقع نہ ہوگی ۔ دوسرے جملے سے ایک طلاق بائنہ ہوئی ہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، باہمی رضمندی ہو تو دوبارہ نکاح پڑھوانا ضروری ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved