• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ڈیڑھ سو گھروالی آبادی کی دو مساجد میں جمعہ

استفتاء

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے گائوں میں دو مسجدیں ہیں اور دونوں میں تقریبا تیس چالیس سال سے جمعہ ہو رہا ہے اور گائوں میں تقریبا ڈیڑھ سو گھر ہیں اور تقریبا چار سے پانچ ہزار  آبادی ہے اور گائوں میں 6،7دکانیں ہیں اور ڈاکٹر بھی ہے ۔اور ہمارا گائوں شہر سے تقریبا تین سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور ہمارے گائوں میں ایک چوہدری صاحب ہیں جو گائوں کے چھوٹے موٹے مسئلے خود ہی حل کرلیتے ہیں ۔کچھ سالوں سے ہمارے گائوں میں دیوبند ی بریلوی مسلہ چل رہا ہے۔مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے دیوبندی حضرات نے ایک اپنی مسجد تعمیر کی ہے اور وہ وہاں جمعہ شروع کرنا چاہ رہے ہیں ۔ آیا کہ شریعت کی رو سے وہاں جمعہ شروع کرنا جائز ہے کہ نہیں ؟برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ حالات میں اس گاؤں میں جمعہ شروع کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔

توجیہ :مذکورہ گاؤں اگرچہ نہ شہر ہے اور نہ بڑا قصبہ ،جس کی وجہ سے فقہ حنفی کی رو سے جمعہ شروع کرنا جائز نہیں لیکن شہر یا قصبہ کی شرط مجتہد فیہ ہے اور مام شافعی ؒ کے نزدیک چالیس مردوں کا ہونا بھی جمعہ قائم کرنے لیے کافی ہے اور مذکورہ گاؤں میں تیس چالیس سال سے جمعہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے لوگ جمعہ پڑھنے کے عادی بھی ہوچکے ہیں اور لوگوں کو ان کی عادت سے ہٹانے میں اچھا خاصا حرج ہے لہذا اس نئی مسجد میں جمعہ شروع نہ کیا گیا تو لوگ اپنی عادت کی وجہ سے اہل بدعت کی مسجد میں جمعہ پڑھنے جائیں گے اور لامحالہ ان کی تقریریں بھی سنیں گے جس کی وجہ سے عقائد کے بگڑنے کا قوی اندیشہ ہے اور لڑائی جھگڑے کابھی خطرہ ہے۔اس لیے امام شافعی ؒ کے قول کے پیش نظر اس گائوں میں جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔

1۔فی بدائع الصنائع1/583میں ہے:

واما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة اداها عند اصحابنا حتی لاتجب الجمعة الا علی اهل المصر ومن کان ساکنا فی توابعه وکذا لایصح اداء الجمعة الافی المصر وتوابعه فلاتجب علی اهل القری التی لیست من توابع المصر ولایصح اداء الجمعة فیها .

2۔وایضا فیہ1/585:

وروی عن ابی حنیفة ؒانه بلدة کبیرة فیها سکک واسواق ولها رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف المظلوم من االحاکم وعلمه او علم غیره والناس یرجعون الیه فی الحوادث وهو الاصح.

3۔وفی کتاب الام1/350:

قال الشافعی ؒ…عن عبیدالله بن عبدالله بن عتبة قال کل قریة فیها اربعون رجلا فعلیهم الجمعة.

4۔وایضا فیہ1/350:

قال الشافعیؒ…ان عمر بن عبدالعزیز کتب الی اهل المیاه فیما بین الشام الی مکة جمعو ا اذا بلغهم اربعین رجلا.

وایضافیہ 1/350:

قال الشافعی ؒ…فاذاکان من اهل القریة اربعون رجلا…ان علیهم الجمعة فاذا صلوا الجمعة اجزأتهم.

وایضا فیہ1/349:

قال الشافعی ؒ سمعت عددا من اصحابنا یقولون تجب الجمعة علی اهل دار مقام اذا کانوا اربعین رجلا.

وفیہ ایضا:

ولو کثر اهل المسجد من قوم مارین او تجار لایسکنونهالم یکن لهم ان یجمعوا اذا کم یکن معهم من اهل البلد المقیمین به اربعون رجلا بالغا .

وفیہ ایضا:

وفیه قال الشافعی ؒ ولااحب  فی الاربعین الا من وصفت علیه فرض الجمعة من رجل حر بالغ غیر مغلوب علی عقله مقیم لا مسافر .

(کفایت المفتی1/248میں ہے:

سوال :ایک موضع میں قریبا 30 آدمی مصلی ہیں اور ایک مسجد ہے ہفتہ میں دوبار بڑی بازار لتی ہے سامان ضروری مثلا کفن وغیرہ ملتاہے لہذا مصلیان نماز جمعہ بھی اس موضع میں ادا کرتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے لئے ایک قاری صاحب بھی مقرر ہیں اب اس موضع میں شرعا جمعہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب :اگرنماز جمعہ وہاں عرصہ سے قائم ہے تو اب اس کو بند کرنے میں مذہبی ودینی فتنہ ہے اس لیے اس کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس مسئلے میں امام شافعی ؒ کے قول یا امام مالک کے قول کے موافق عمل کرلینا جائز ہے۔

وایضا 1/249فیہ :

سوال :بستیوں میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟اگر جائز ہے تو فقہاء کرام کے مقرر کردہ شرائط کا کیا جواب ہے اور بعد ادائے جمعہ(ظہر) احتیاطی اداکرنا کیسا ہے ؟

جواب :چھوٹی بستیوں میں نماز جمعہ حنفیہ کے نزدیک نہیں ہے لیکن انہوں نے جمعہ کی اہمیت کو قائم رکھتے ہوئے مصر کی تفریف میں یہاں تک تنزل کیا ہے کہ مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا تک لے  آئے ۔حالانکہ ان کے اپنے اقرار (ھذا یصد ق علی کثیر من القری)سے یہ تعریف بہت سے قری پر صادق  آتی ہے ۔پس نماز جمعہ کی اہمیت اور مصالح مہمہ عالیہ اسلامیہ کا مقتضی یہ ہے کہ نماز جمعہ کو ترک نہ کیا جائے اگر چہ امام شافعی ؒکے مسلک پر عمل کے ہی ضمن میں ہو ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved