- فتوی نمبر: 27-243
- تاریخ: 20 ستمبر 2022
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ہمارے پاس ڈاکخانہ کی ایک برانچ ہےجس میں میں ملازم ہوں لیکن میری تنخواہ 1560روپے ہے جوکہ بہت کم ہے۔میرا کام یہ ہے کہ میں نے پانچ دیہاتوں میں مختلف گھروں میں جاکر ڈاک لیٹر تقسیم کرنے ہوتے ہیں جس پر میں ان لوگوں سے 100یا 150روپے لیتا ہوں یا وہ خود دیدیتے ہیں تو کیا یہ پیسے ان سے لینا حلال ہے یا حرام؟
وضاحت مطلوب ہے: 1560 روپے تنخواہ ماہانہ یا یومیہ؟ اگر ماہانہ ہے تو اتنی کم تنخواہ کی وجہ کیا ہے؟
جواب وضاحت: یہ تنخواہ ماہانہ ہے، ہمارے ہاں 32 سال سے ڈاکخانے کی برانچ ہے، پہلے 300 روپے ماہانہ پھر 600روپے پھر 1200 روپے تنخواہ تھی اور اب 1560 روپے تنخواہ ہے۔ ا سکی وجہ یہ ہے کہ یومیہ ڈاک کبھی کم آتی ہے اور کبھی زیادہ آتی ہے اور کبھی بالکل نہیں آتی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ آپ محکمہ کے باقاعدہ ملازم ہیں آپ کی ملازمت کی تنخواہ بھی مقرر ہے لہذاآپ کا آگے لوگوں سے مزید پیسے لینا رشوت اور ناجائز ہے ۔اگر اجرت کم ہے تو محکمے سے بات کرکے اپنی اجرت بڑھوائیں۔
درر الحكام شرح مجلۃ الأحكام (4/533) میں ہے:
إن كل هدية يأخذها موظف في وظائف الحكومة هي بمثابة الهدية التي يأخذها القاضي ( الفتح )
حاشیہ ابن عابدین(8/48ط:امدادیہ) میں ہے:
(ويرد هدية إلا من) أربع: السلطان والباشا أشباه وبحر.و(قريبه) المحرم (أو ممن جرت عادته بذلك) بقدر عادته ولا خصومة لهم.
(قوله: ويرد هدية) الأصل في ذلك وما في البخاري، عن أبي حميد الساعدي «قال استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الأزد يقال له ابن اللتبية على الصدقة فلما قدم قال: هذا لكم، وهذا لي قال – عليه الصلاة والسلام – هلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه فينظر أيهدى له أم لا» قال عمر بن عبد العزيز: كانت الهدية على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم هدية واليوم رشوة. ذكره البخاري، واستعمل عمر أبا هريرة فقدم بمال فقال له من أين لك هذا؟ قال: تلاحقت الهدايا فقال له عمر أي عدو الله هلا قعدت في بيتك، فتنظر أيهدى لك أم لا فأخذ ذلك منه، وجعله في بيت المال، وتعليل النبي صلى الله عليه وسلم دليل على تحريم الهدية التي سببها الولاية فتح.
(قوله:ولا خصومة لهما) قال في البحر: والحاصل أن من له خصومة لا يقبلها مطلقا ومن لا خصومة له فإن كان له عادة قبل القضاء قبل المعتاد وإلا فلا اهـ أي سواء كان محرما أو غيره على ما مر عن شيخ الإسلام
اعلاء السنن (15/64)میں ہے:
والحاصل ان حد الرشوة هو ما يؤخذ عما وجب على الشخص سواء كان واجبا علی العين اوعلى الكفاىة وسواء كان واجبا حقا للشرع كما في القاضي وامثاله ۔۔۔ او كان واجبا عقدا كمن آجر نفسه لاقامة امر من الامور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم او عليهم كاعوان القاضي واهل الديوان وامثالهم كذا في الكشاف للتهانوي (7/596)
اعلاء السنن (15/66) میں ہے:
فالحق في حدها ما ذكره صاحب البحر انه بذل المال فيما يجب علي شخص
مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ معارف القرآن (5/397) میں آیت ولا تشتروا بعهد الله ثمنا قليلا إنما عند الله هو خير لكم إن كنتم تعلمون (النحل،95) کے تحت ابن عطیہ کی ذکر کردہ تشریح کے ذیل میں لکھتے ہیں:
اس سے معلوم ہوا کہ رشوت کی مروجہ قسمیں سب حرام ہیں جیسے کوئی سرکاری ملازم کسی کام کی تنخواہ حکومت سے پاتا ہے تو اس نے اللہ سے عہد کرلیا ہے کہ یہ تنخواہ لے کر مفوضہ خدمت پوری کروں گا اب اگر وہ اس کے کرنے پر کسی سے معاوضہ مانگے اور بغیر معاوضہ اس کو ٹلائے تو یہ عہد اللہ تو توڑ رہا ہے اسی طرح جس کام کا اس کو محکمہ کی طرف سے اختیار نہیں اس کو رشوت لے کر کر ڈالنا بھی اللہ سے عہد شکنی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved