- فتوی نمبر: 14-126
- تاریخ: 04 اپریل 2019
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا ایک جاننے والا ہے وہ لاہور سے باہر رہتا ہے وہ ایک کالج کا ملازم ہے وہ اپنے کالج کے لیے مختلف چیزیں خریدنے لاہور آتا تھا اب وہ چیزیں خریدنے لاہور نہیں آتا ہو مجھے کہہ دیتا ہے کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے مجھے یہ خریدکے ارسال کردیں، میںاپنے پیسوں سے وہ چیز خرید کر اسے ارسال کرتا ہوں اس کے بعد وہ مجھے پیسے دیتا ہے ۔اب مجھے بتائیں کہ اگر وہ چیز مجھے بازار سے سو روے کی ملتی ہے تو کیا میں اسے دوسو روپے میں سیل کرسکتا ہوں ؟وہ اکثر چیزیں منگواتا ہے ۔اب میں اسے کاروبارکیسے بنا سکتا ہوں؟ مجھے اس مسئلے کے بارے میں بہتر رہنمائی فرمائیں۔
وضاحت مطلوب ہے :(۱)کیا کالج کی جانب سے اس کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ شہر جاکر چیزیں خریدے ؟ (۲)کیا وہ کالج انتظامیہ کے علم میں یہ بات لاسکتا ہے کہ میں اب کسی کے واسطے سے چیزیں خریدتا ہوں اور اسے بھی نفع دیتا ہوں ؟ (۳)کالج پرائیویٹ ہے یا سرکاری ؟
جواب وضاحت:(۱)جی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔(۲)کالج والوں کواس بات کاعلم ہے کہ چیزوں میں نفع رکھا جاتا ہے۔یعنی جس سے چیزیں منگواتے ہیں اس کونفع دیتے ہیں ۔(۳)پرائیویٹ کالج ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کا باقاعدہ یہ کام نہیں ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کالج کا ملازم آپ سے مذکورہ سامان خریدنا چاہتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ بطور وکیل (ایجنٹ)ان کے لیے ان کا مطلوبہ سامان خرید کر انہیں ارسال کردیں ۔وکیل امین ہوتا ہے اس لیے جتنے میں اس نے سامان خریدا ہے اتنے کا ہی بتانے کا پابند ہے اس سے زائد کا بتا کر زائد رقم لینا جائز نہیں۔البتہ اس صورت میں آپ ان سے اجرت (کمیشن) طے کرسکتے ہیں جو دونوں کو معلوم بھی ہو اورمقدار کے لحاظ سے یا فیصد کے لحاظ سے متعین ہو۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ اسے صاف بتادیں کہ جو سامان آپ کو مطلوب ہو وہ میں آپ کو بیچاکروں گا اس صورت میں آپ کتنے کا خریدیں گے اور کتنا نفع رکھیں گے اس کا بتانا ضروری نہ ہو گا۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved