- فتوی نمبر: 27-149
- تاریخ: 03 جون 2022
- عنوانات: حظر و اباحت > عملیات، تعویذات اور جادو و جنات
استفتاء
مسئلہ یہ ہے کہ ایک بندہ دم کرتا ہے اور بظاہر وہ اس کے پیسے نہیں لیتا لیکن اس نے دم کے لیے کچھ بندے بھی رکھے ہوئے ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی مقرر ہیں جو تقریباً پانچ سے چھ لاکھ روپے بنتی ہیں۔ یہ دم وہ لوگ مسجد میں کرتے ہیں اور صرف تنخواہ کی وجہ سے کرتے ہیں اگر ان کو تنخواہ نہ ملے تو وہ دم چھوڑ دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ لوگ دم کرنے کے جو پیسے لیتے ہیں کیایہ تجارت یا خرید وفروخت کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر آتا ہے تو یہ پیسے ان کے لیے جائز ہیں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
دم کرنا علاج معالجہ میں شامل ہے اس لیے مذکورہ صورت میں چونکہ وہ بندے اس عامل کے ملازم ہیں لہٰذا ان بندوں کا دم کرنے پرتنخواہ لینا اجارے کا معاملہ ہے اور مسجد کواس کام کے لیے ٹھیہ بنانا درست نہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر یا طبیب مسجد کوعلاج معالجہ کے لیے ٹھیہ بنالے لہٰذا مذکورہ صورت میں مسجد میں بیٹھ کر جو پیسے کمائے گئے ہیں انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے انہیں صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اگر کمائے ہوئے پیسوں کو یکمشت صدقہ کرنا مشکل ہو تو تھوڑے تھوڑے کرکے صدقہ کردیں۔
ہندیہ(9/109) میں ہے:
’’رجل يبيع التعويذ فى المسجد الجامع ويكتب فى التعويذ التوراة والانجيل والفرقان ويأخذ عليه المال ويقول: ادفع الى الهدية لايحل له ذلك، كذا فى الكبرى. ويكره كل عمل من عمل الدنيا فى المسجد.
المحیط البرہانی فی فقہ النعمانی(5/359) میں ہے:
’’رجل يبيع التعويذ فى المسجد الجامع ويكتب فىه التوراة والانجيل ويأخذ عليه مالا، ويقول: إنى ادفع هذا هدية لايحل له المأخوذ، لانه نص على الهدية، واخذ المال على الهدية لايجوز‘‘
احسن الفتاویٰ(6/440) میں ہے:
سوال: ایک مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ مسجد میں بیع جب مکروہ ہے کہ مبیع بہت زیادہ ہو اور مسجد میں بیع بازار کی طرح عموماً کی جائے۔ اگر کسی چھوٹی چیز کی بیع کبھی کبھی مسجد میں کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، دلیل میں عبارت ذیل پیش کرتے ہیں:
وكذالك النهى عن البيع فيه هو الذى يغلب عليه حتى يكون كالسوق لانه صلى الله عليه وسلم لم ينه عليا رضى الله تعالى عنه عن خصف النعل فيه مع انه لو اجمتمع الناس لخصف النعال فيه كره فكذالك البيع وانشاد الشعر والتحلق قبل الصلوة فماغلب عليه كره وما لافلا (ردالمحتارص618،ج1)
نیز کہتے ہیں کہ بذل المجہود شرح ابی داؤد میں اس سے بھی زیادہ جواز کی تصریح اور تشریح ہے،نیز شامیہ باب الاعتکاف میں ہے:
ان المبيع لولم يشغل البقعة لايكره احضاره كدارهم يسيرة اوكتاب ونحوه (الى قوله) ان احضار الثمن والمبيع الذى لايشغل جائز (ردالمحتارص884،ج 2)
کیا مولوی صاحب کا یہ خیال اور استدلال درست ہے؟
جواب:شامیہ باب الاعتکاف کا جزئیہ تو صرف معتکف سے متعلق ہے،اس میں مبیع کے جوازیا عدم جواز سے متعلق کوئی بحث نہیں،بلکہ صرف احضار مبیع فی المسجد للمعتکف کی تفصیل ہے۔
غیر معتکف کی بیع کے متعلق مطلقاً کراہت تحریمیہ کی تصریح عبارت مذکورہ کے ساتھ ہی شرح التنویراور شامیہ میں موجود ہے:
قال فى شرح التنوير وكره أى تحريما لانها محل اطلاقهم احضار المبيع فيه كما كره فيه مبايعة غير المعتكف مطلقا للنهى.
وفى الشامية (قوله مطلقا) أى سواء احتاج اليه لنفسه أو عياله أو كان للتجارة احضره أو لا كما يعلم مما قبله ومن الزيلعى والبحر(ردالمحتارص184،ج2)
اور شامیہ باب احکام المساجد میں علامہ ابن عابدینؒ کی اپنی تحقیق نہیں، بلکہ امام طحاویؒ کی تحقیق نقل کی ہے اگر چہ اس جگہ آپ نے اس پر سکوت کیا ہے، مگر باب الاعتکاف میں مطلقاً کراہت تحریمیہ کو ثابت کیا ہے، کما مر، امام طحاویؒ کا قول مذکورہ مذہب مشہور کے خلاف ہے جیساکہ سؤر الہرۃ وغیرہ متعدد مسائل میں آپ کی تحقیق مذہب مشہور کے خلاف ہے۔ چنانچہ رافعیؒ امام طحاویؒ کی تحقیق مذکور کے متعلق فرماتے ہیں:
(قوله وكذلك النهى عن البيع فيه هو الذى يغلب عليه الخ) هذا اخلاف المشهور فان المشهور كراهة البيع فى المسجد وإن لم يغلب عليه. (التحريرالمختار ص82،ج1)
بذل المجہود میں بھی امام طحاویؒ کی تحقیق کو بایں طور نقل کیا ہے:
قال الشوكاني أما البيع والشراء فذهب جمهور العلماء إلى أن النهي محمول على الكراهة (الى قوله) وفرق أصحاب أبي حنيفة بين أن يغلب ذلك ويكثر فيكره، أو يقل فلا كراهة، وهو فرق لا دليل عليه، انتهى. قلت: وهذا الذي عزاه إلى أصحاب أبي حنيفة هو الذي ذكره الطحاوي في "شرح معاني الآثار” (بذل المجهود ص176 ج2 باب التحلق يوم الجمعة قبل الصلوة)
اس عبارے سے مزید معلوم ہوا کہ امام طحاویؒ حنفیہ میں سے اس تحقیق میں متفرد ہیں، اسی لیے شوکانیؒ کے قول کا محمل امام طحاویؒ کو قرار دیا گیا۔
غرضیکہ حنفیہ کا مذہب مشہور اور مفتیٰ بہ یہی ہے کہ بیع فی المسجد بہر صورت غیر معتکف کے لیے مکروہ تحریمی ہے اور واجب الرد ہے۔
قال في شرح التنوير واعلم أن فسخ المكروه واجب على كل منهما أيضاً بحر وغيره.
لرفع الاثم
وفى الشامية (قوله أيضا) أي كما في البيع الفاسد، وقدمنا عن الدرر أنه لا يجب فسخه، وما ذكره الشارح عزاه في الفتح أول باب الإقالة إلى النهاية ثم قال وتبعه غيره وهو حق؛ لأن رفع المعصية واجب بقدر الإمكان اهـ. قلت: ويمكن التوفيق بوجوبه عليهما ديانة. بخلاف البيع الفاسد، فإنهما إذا أصرا عليه يفسخه القاضي جبرا عليهما. ووجهه أن البيع هنا صحيح ويملك قبل القبض ويجب فيه الثمن لا القيمة، فلا يلي القاضي فسخه لحصول الملك الصحيح (ردالمحتار ص186 ج4)
جب یہ بیع واجب الرد ہے تو اس مبیع میں تصرف اکل وغیرہ حرام ہوگا، مگر یہ مبیع خود حرام نہیں، یعنی اکل حرام ہے ماکول حرام نہیں۔
قال في شرح التنوير(اشترى مكيلا بشرط الكيل حرم) أي كره تحريما (بيعه وأكله حتى يكيله) وقد صرحوا بفساده وبأنه لا يقال لآكله إنه أكل حراما لعدم التلازم كما بسطه الكمال
وفي الشامية (قوله: كما بسطه الكمال) حيث قال: ونص في الجامع الصغير على أنه لو أكله، وقد قبضه بلا كيل لا يقال إنه أكل حراما؛ لأنه أكل ملك نفسه إلا أنه آثم لتركه ما أمر به من الكيل، فكان هذا الكلام أصلا في سائر المبيعات بيعا فاسدا إذا قبضها فملكها ثم أكلها(الى قوله)وحاصله: أنه إذا حرم الفعل وهو الأكل لا يلزم منه أن يكون أكل حراما(الى قوله)وكذا لو غصب شيئا واستهلكه بخلط ونحوه حتى ملكه ولم يؤد ضمانه يحرم عليه التصرف فيه بأكل ونحوه وإن كان ملكه (ردالمحتار ص227، ج4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved