- فتوی نمبر: 9-201
- تاریخ: 02 نومبر 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ***ہمارے مدرسہ ضلع *** میں مدرس تھے۔ دو سال سے کام کر رہے تھے۔ عید الاضحٰی کی چھٹیوں میں اپنے گھر گئے۔ ہمیں ان کی غیر اخلاقی حرکات کا علم ہوا۔ جن کے شواہد بھی موجود تھے۔ ان حرکات کا علم میرے بیٹے اور بھتیجے کو بھی ہوا۔ موصوف مذکور کو کچھ سزا دے کر ان کے گھر والوں کو بلا کر ان سے اس علاقہ میں نہ آنے کا وعدہ لے کر ان کے حوالہ کرنا تھا۔ چنانچہ****کو صبح سات بجے مدرسہ پہنچے تو انہیں لڑکوں نے ڈنڈوں سے مارا پیٹا۔ اس کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو لینے کون سے بھائی آئیں گے تو انہیں نے اپنے ’’***‘‘ کا نمبر دیا، لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ پھر دوسرا نمبر دیا، رابطہ ہونے پر ان کو *** کی غیر اخلاقی حرکات کے بارے میں اطلاع کی اور بتایا کہ انہیں سزا دی گئی ہے۔ اور وہ موبائل فون بھی لے کر آئیں، جو ماسٹر ****صاحب کے پاس ہے، اور اسے لے جائیں۔ راستہ میں ان سے مسلسل رابطہ رہا۔ موبائل فون کا ڈیٹا اس پر شاہد ہے۔ تین گھنٹے کے بعد اچانک*** کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔ چاہے، دودھ وغیرہ پلایا گیا۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا، لیکن ڈاکٹر کے آنے سے پہلے موصوف فوت ہو گئے۔ اس وقت موصوف کے گھر والے ساہیوال پہنچے تھے، موصوف کو جان سے مارنے کا ہرگز کوئی منصوبہ نہ تھا۔ جس کے مندرجہ ذیل شواہد ہیں:
1۔ اگر جان سے مارنا مقصود ہوتا تو موصوف کے مدرسہ آنے کا انتظار نہ کیا جاتا۔
2۔ کوئی بندوق یا گولی وغیرہ استعمال نہ کی گئی، جبکہ یہ آسان ذریعہ ہے۔
3۔ موصوف کی وفات کے بعد لاش کو چھپانے (غائب) کرنے کی بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
4۔ موصوف کی وفات کے بعد ہم سارے ان کے گھر والوں کے آنے تک وہیں موجود رہے۔
5۔ اہل خانہ کے آنے ک ےبعد ساری حقیقت ان کے سامنے رکھی، ان سے کہا گیا کہ جو کاروائی آپ مناسب سمجھتے ہیں ویسے کر لیں۔
6۔ موصوف کے فوت ہونے کے بعد علاقہ کے سمجھ دار لوگوں کو بلا کر ساری حقیقت بتائی گئی کہ جو کچھ ہوا وہ نادانستہ طور پر ہوا ہے۔ جبکہ ابھی موصوف کے اہل خانہ نہیں پہنچے تھے۔
7۔ آنے والے اہل خانہ نے اپنے گھر والوں سے فون پر مشورہ کر کے کہا کہ ہم قانونی کاروائی کرنا چاہتے ہیں۔ پولیس کو اطلاع بھی ہم نے خود کی ہے۔ پولیس آئی تو میت حوالہ کی گئی اور میرے بیٹے اور بھتیجے کو حوالہ پولیس کر دیا گیا۔ مدعی کو لکھا ہوا خط بھی ساتھ لف ہے۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ موصوف کو قتل کرنے کا کوئی منصوبہ نہ تھا۔ نادانستہ طور پر سزا میں احتیاط نہ رہی، جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔
سوال یہ ہے کہ یہ قتل عمد ہے یا خطا؟ یا کیا صورت ہے؟ اور کے کیا کچھ احکامات ہمارے اوپر عائد ہوتے ہیں؟ جو قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل عنایت فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سوال میں ذکر کردہ ’’تو انہیں لڑکوں نے ڈنڈوں سے مارا‘‘ سے متعلق
وضاحت مطلوب ہے: 1۔ کتنے لڑکے تھے؟ نیز وہ بالغ تھے یا کوئی ان میں نابالغ بھی تھا؟
جواب: تین افراد تھے اور تینوں بالغ تھے۔
2۔ ڈنڈوں کی کیا نوعیت تھی؟
جواب: عام طور پر طلباء کی پٹائی کے لیے جو بید یا چھڑیاں یا ڈنڈے ہوتے ہیں، انہیں سے مارا۔
3۔ ڈنڈے جسم کے کن حصوں پر لگے؟
جواب: کمر، بازو، ٹانگیں رانوں سمیت۔
4۔ مدرسین یا مہتمم نے ان لڑکوں کو صراحتاً یا اشارتاً مارنے کا کہا تھا یا لڑکوں نے از خود مارا؟
5۔ اگر کہا تھا تو اس کی کیا تفصیل ہے؟ نیز مہتمم یا مدرسین نے چھڑانے کی بھی کوشش کی یا نہیں؟
جواب: مارنے والوں میں ایک مہتمم کا بیٹا ایک داماد اور ایک دوسرا استاذ تھا، سب کا مشورہ ہوا تھا کہ پہلے پٹائی کی جائے اور پھر اس کے رشتے داروں میں سے کسی کو بلا کر اس کے حوالے کر دیا جائے یعنی: مدرسے سے فارغ کر دیا جائے، جان سے مارنے کی تو نہ ہی نیت تھی اور نہ ہی اتنی مار تھی کہ وہ جان بحق ہو جاتا، شاید کچھ مار پیٹ اور کچھ بدنامی ورسوائی کا خوف اثر انداز ہو گیا۔
6۔ کیا مقتول کے ورثاء اس بیان سے متفق ہیں، یا ان کو اس سے اختلاف ہے؟
جواب: تمام حالات وواقعات سننے کے بعد وہ کیس وغیرہ نہ کروانے پر رضامند ہو چکے ہیں۔
7۔ کیا اس کی کوئی ڈاکٹری رپورٹ بھی ہے؟ اگر ہے تو مہیا کی جائے۔
جواب: جی کوئی رپورٹ یا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت قتل عمد کی نہیں، اور نہ ہی قتل خطا کی ہے بلکہ یہ صورت قتل شبہ عمد کی ہے۔ جس کے احکام یہ ہیں:
1۔ ایسی صورت میں قاتل کو گناہ ہوتا ہے، جس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
2۔ ایسی صورت میں قاتل پر کفارہ آتا ہے، جس کی صورت آج کے دور میں یہ ہے کہ قاتل دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے۔
3۔ ایسی صورت میں دیت آتی ہے، جس کی مقدار چاندی کے لحاظ سے دو ہزار چھ سو پچیس تولہ چاندی یا روپوں پیسوں میں اتنی چاندی کی قیمت ہے۔لیکن چونکہ آجکل عاقلہ کے افراد عموماً دیت اپنا حصہ ڈالنے پر تیار نہیں ہوتے، اور نہ ہی اس بارے میں کوئی قانون ہے۔ لہذا آجکل عاقلہ کو مفقود سمجھیں اور دیت خود قاتل یا اس کے عزیز واقارب مل جل کر ادا کریں۔
في الدر المختار:
( و ) الثاني ( شبهه وهو أن يقصد ضربه بغير ما ذكر ) أي بما لا يفرق الأجزاء ولو بحجر وخشب كبيرين عنده خلافا لغيره. وفي الشامية: ويقال له شبه الخطأ ؛ لأن فيه معنى العمدية باعتبار قصد الفاعل إلى الضرب ، ومعنى الخطأ باعتبار عدم قصده إلى القتل إذ ليست الآلة آلة قتل ا ه ….. (قوله كبيرين ) فلو صغيرين فهو شبه عمد اتفاقاً. (10/ 159، ط: بيروت)
- وموجبه الإثم والكفارة ودية مغلظة على العاقلة. (10/ 61- 160، بيروت)
- دية شبه العمد مائة من الإبل أرباعا من بنت مخاض وبنت لبون وحقة إلى جذعة ….. لا غير)، وفي الشامية: قوله: (لا غير ) اعلم أن عبارات المتون هنا مختلفة المفهوم ، فظاهر الهداية والاختيار والكنز ، والملتقى أن الدية في شبه العمد لا تكون من غير الإبل ، وهو ظاهر عبارة المصنف هنا أيضا ، وعليه فالتغليظ ظاهر ، لعدم التخيير وظاهر الوقاية والإصلاح والغرر وغيرها أنها تكون من غير الإبل ….. إلى أن قال: فهذه العبارات صريحة في أن دية شبه العمد لا تختص بالابل….فالظاهر أن في المسألة روايتين.والله تعالى أعلم. (35- 236، ط: بيروت)
- ( وكفارتهما ) أي الخطأ وشبه العمد ( عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما ) إذ لم يرد به النص والمقادير توقيفية. (10/ 237، ط: بيروت)
احسن الفتاویٰ میں ہے:
’’دیت کی ان انواع میں سے کسی ایک کی تعیین کا اختیار قاتل کو ہے یا قاضی کو؟ قول اول راجح معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (8/ 540)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved