- فتوی نمبر: 23-196
- تاریخ: 30 اپریل 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
سوشل میڈیا پر درج ذیل تحریر چل رہی ہے اس کے بارے میں وضاحت مطلوب ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :بڑھاپے کے سفید بالوں کو بدل دو اور یہودکے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔(ترمذی ،کتاب اللباس باب ماجاء فی الخضاب)اسی طرح ایک اورحدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ((ان اليهود والنصاري لايصبغون فخالفوهم ))(بخاري رقم :5899كتاب اللباس )ترجمہ:یہود ونصاری خضاب نہیں لگاتے تم ان کے خلاف کرو یعنی خضاب لگایا کرو۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو خضاب لگانے کا حکم فرمایاتھا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس آئے تو ان کی داڑھی سفید گھاس کی طرح تھی ،تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے اہل وعیال کو حکم دیا کہ اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہی سے بچو۔(مسلم :رقم2192کتاب اللباس)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خضاب لگانے کا حکم فرماتے تھے اور خضاب نہ لگانے کو یہودونصاری کا طریقہ بتاتے تھے ،اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ روز مرہ کی عادات لباس اور وضع میں جتنا ہوسکے کافروں کی مخالفت کریں ۔
خضاب کیساہو؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ان احسن ماغيربه هذا الشيب الحناء والكتم (ابوداؤد:رقم :4205كتاب اللباس)"ترجمہ:بہترین چیز جس سے بڑھاپے کو بدلا جائے وہ مہندی اور وسمہ ہے ۔”
کون سے رنگ سے اجتناب کرنا چاہیے؟نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :سیاہ رنگ کے خضاب کرنے والوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہیں ہوگی۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام لا يريحون رائحة الجنة”ترجمہ :آخری زمانےمیں ایک قوم ہوگی وہ کبوترکے سینےکا سا سیاہ خضاب کریں گے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھیں گے۔”(ابوداؤدرقم :4212،کتاب الترجل باب فی خضاب السواد )
فائدہ (1)۔۔۔بڑھاپے میں بالوں پر زرد رنگ یا سرخ کے ساتھ خضاب کرنا سنت ہے اور سیاہ رنگ کا خضاب حرام ہے ۔
(2)۔۔۔خضاب نہ لگانا نبی کریم ﷺ کی سنت کے خلاف ہے اور یہود ونصاری کی مشابہت ہے ۔
(3)۔سیاہ رنگ کے ساتھ داڑھی یاسر کے بالوں کو خضاب لگانا رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ (عبدالرحمن بلدستانی )
سوال یہ ہے کہ ہمارے جیسے سفید ریش لوگوں کےلئے کیا حکم ہے ؟ کیا سفید ریش رہنے کی بھی کوئی اجازت ہے ؟متعلقہ تحریرکے بارے میں آگاہ فرمائیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سفید ریش لوگوں کیلئے کالے خضاب کے علاوہ دیگر قسم کے خضاب لگانے نہ لگانے دونوں کا اختیار ہے لہذا سفید ریش رہنے کی بھی جازت ہے باقی رہی وہ احادیث جو سوال میں مذکور ہیں وہ تب ہیں جب خضاب نہ لگانے سے یہود ونصاری کے ساتھ مشابہت ہوتی ہواور ہمارے علاقے میں خضاب نہ لگانے سے یہود و نصاری کے ساتھ مشابہت نہیں ۔اگر ان احادیث سے ہر حال میں خضاب لگانا مراد ہوتا تو خودصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ہر حال میں خضاب لگایا کرتے حالانکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے خضاب نہ لگانا بھی ثابت ہے :قال أبو إسحاق الهمدانى : رايت على بن أبى طالب ابيض الرأس واللحية . وقاله الشعبى ، وكان أبى بن كعب ابيض اللحية ، وعن أنس ، ومالك بن أوس وسلمه بن الأكوع أنهم كانوا لا يغيرون الشيب ، وعن أبى الطفيل ، وأبى برزة السلمى مثله ، وكان أبو مجلز وعكرمة وعطاء وسعيد بن جبير وعطاء بن السائب لا يخضبون” (شرح ابن بطال(کتاب اللباس9/149)
چناچہ امام محمدؒاپنی ” موطا امام محمدصفحہ 292″ میں فرماتے ہیں: قال محمد : لا نرى بالخضاب بالوسمة والحناء والصفرة بأسا وإن تركه أبيض فلا بأس بذلك كل ذلك حسن ( یعنی خضاب لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں اور بالوں کو سفید چھوڑنے میں بھی کوئی حرج نہیں دونوں باتیں اچھی ہیں )۔موطا امام مالک (صفحہ :712) میں ہے:"عن سعيد ابن المسيب أنه قال : كان ابراهيم خلیل الرحمٰن أول الناس رأى شيبا فقال:يارب ماهذ؟ فقال الله تعالى : وقار يا ابرهيم فقال : رب زدنى وقارا "ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب ؒ کہتے ہیں کہ رحمٰن کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے شخص تھے کہ جب انہوں نے اپنی داڑھی میں سفید ی دیکھی تو پوچھا اے میرے رب یہ (سفیدی) کیا (حکمت رکھتی ) ہے؟ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا : اے ابراہیم(اس میں ) وقار ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے درخواست کی (وقارحاصل ہوجائے تو آپ کی نعمت ہے لہذا) اے میرے رب میرا وقاربڑ هادیجئے( جس کی ایک ظاہری صورت یہ ہے کہ بالوں میں سفیدی بڑھ جائے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved