• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دارالحرب میں اسلام قبول کرنے والی عورت سے نکاح کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک غیر مسلم فیملی ہے تقریبا دس سال پہلے عورت کا شوہر اس کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اب وہ عورت اور اس کے بچے الحمد للہ مسلمان ہیں۔ اب وہ عورت نکاح کرنا چاہتی ہے۔ کیا یہ عورت نکاح کرسکتی ہے؟ یا پہلے شوہر سے کوئی طلاق کا پیپر لینا ضروری ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ  مذکورہ میاں بیوی کس ملک میں رہتے تھے اور اس وقت دونوں کس ملک میں ہیں؟ مذکورہ عورت نے اسلام کب قبول کیا؟

جواب وضاحت: وہ دونوں فلپائن میں رہتے ہیں 10 سال پہلے شوہر نے چھوڑا اور اب تک کوئی رابطہ نہیں، تقریبا 5 سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فلپائن دارالحرب ہے اور دارالحرب میں اگر کوئی عورت مسلمان ہو جائے اور اس کا خاوند اسلام قبول نہ کرے تو وہ عورت عدت گزارکرآگے نکاح کر سکتی ہے۔لہذا مذکورہ عورت عدت گزار کر آگے نکاح کر سکتی ہے۔اور عدت کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر مذکورہ عورت حاملہ تھی تووضع حمل کے بعد آگے نکاح کر سکتی ہے ۔

اور اگر حاملہ نہیں تھی تو مذکورہ عورت اور اس سے نکاح کرنے والا مرد دونوں اگر فقہ شافعی سے تعلق رکھتے ہوں تو تین طہر گزرنے کے بعد نکاح کر سکتے ہیں،اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک فقہ حنفی سے تعلق رکھتا ہے تو چھ حیض گزرنے کے بعد نکاح کر سکتے ہیں۔

حیلہ ناجزہ (109) میں ہے:

دوسرا جز یہ ہے کہ عورت مسلمان ہو جائے اور خاوند کفر پر باقی رہے،تو خواہ یہ کافر کتابی ہو یا غیر کتابی،ہر حال میں اس کا حکم یہ ہے کہ اگر واقعہ دارالاسلام کا ہے تو قاضی اس کے خاوند پر اسلام پیش کرے، اگر وہ مسلمان ہوجائے تو نکاح بحالہ قائم رہے گا اور اگر وہ اسلام قبول نہ کرے یا سکوت کر لے تو قاضی ان دونوں میں تفریق کر دے اور اگر یہ واقعہ دارلحرب کا ہے تو عورت کے تین حیض گزر جانا ہی انکار اسلام کے قائم مقام ہو جائے گا اور بعد تین حیض گزر جانے کے عورت بائنہ ہو جائے گی۔

اگر زوجہ اور شوہر دونوں دارالاسلام میں ہوں اور عرض اسلام کے بعد تفریق کی گئی ہے ہے تب تو بالاتفاق عدت واجب ہے اور اگر ان میں سے ایک یا دونوں دارالحرب میں ہیں اور اس لیے عرض اسلام نہ ہو سکا بلکہ تین حیض گزر جانے کی وجہ سے بائنہ ہوئی ہے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر شوہر مسلمان ہوا ہے تو بالاتفاق عدت واجب نہیں اور اگر عورت مسلمان ہوئی ہے تو صاحبین کے نزدیک اس پر ان تین حیض کے علاوہ دوسرے تین حیض تک عدت گزارنا واجب ہے اور امام صاحب کے نزدیک عدت واجب نہیں اور احتیاط اسی میں ہے کہ صاحبان کے قول پر عمل کیا جائے امام طحاوی نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

اور حاشیہ میں مذکور ہے:

البتہ اگر یہ عورت حاملہ ہو تو امام صاحب کے نزدیک بھی وضع حمل سے قبل اس سے نکاح جائز نہیں۔

تکملہ المجموع شرح المھذب(433/19) میں ہے:

المسئلة الثانىة فى حكم العقد عند اسلام أحد الزوجين و هما بدار الحرب :

و كما اختلف الفقهاء فى المسئلة السابقة اختلفوا هاهنا :

فذهب اصحابنا الشافعية و المالكية و الحنابلة الى ان الحكم فى هذه المسألة كالحكم فيما اذا كان الزوجان بدار الاسلام فلم يجعلوا لاختلاف الدار أثرا.

ایضا (433/19) میں دار الاسلام میں اسلام قبول کرنے کا حکم مذکور ہے:

ذهب أصحابنا الشافعية و الحنابلة فى احدي الروايتين عن أحمد الى أنه إن أسلم أحدهما قبل الدخول بطل العقد فى الحال و إن كان بعده و أسلم المتأخر قبل انقضاء العدة فالنكاح باق على حاله إن لم يسلم حتى انقضت العدة بطل النكاح و وقعت الفرقة .

کتاب الام (1718/1) میں ہے:

و عدتها عدة المطلقة

 

تکملہ المجموع شرح المھذب (523/21)میں ہے:

(فصل) وإن وجبت العدة على المطلقة، لم تخل إما أن تكون حرة أو أمة فإن كانت حرة نظرت فإن كانت حاملا من الزوج ، اعتدت بالحمل ،لقوله تعالى (وَأُولاتُ الأحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ)

ایضا (535/21) میں ہے:

(فصل) فإن كانت المعتدة غير حامل، فإن كانت ممن تحيض، اعتدت بثلاثة اقراء، لقوله عزوجل (وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) والأقراء هى الاطهار.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved