- فتوی نمبر: 13-298
- تاریخ: 19 مارچ 2019
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
دوائی کا سرکاری ریٹ فروخت 200 روپے ہے ۔کبھی کبھی یہ دوائی مارکیٹ میں شارٹ ہوجاتی ہے ۔پھر دکاندار اس دوائی کو مہنگی فروخت کرتا ہے۔ یعنی چار سو روپے کی فروخت کرتا ہے۔ کیا یہ درست ہے ؟
کیا یہ منافع درست ہے ؟ دوائی اسٹاک کر کےرکھنا ذخیرہ اندوزی میں تو نہیں آتا ؟
وضاحت مطلوب ہے یہ کون سی دوائی ہے؟ جس کا سرکاری ریٹ 200 روپے ہے ؟
2۔ مارکیٹ میں کیسے شارٹ ہو جاتی ہے ۔تین یا چار سو روپے پر فروخت کرتے وقت گورنمنٹ پوچھ گچھ نہیں کرتی؟
4 کیا دوکاندار کو پتہ ہوتا ہے کہ اس دوائی نے شارٹ ہونا ہے اور وہ شارٹ ہونے کے وقت کے لیے پہلے سے اس دوائی کی ذخیرہ اندوزی کر لیتا ہے ؟
سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟
جواب وضاحت
1۔یہ دوائی الرجی ) (aranic forteاور نیند) (xanix 1mgکی ہے ۔
2۔الرجی کی دوائی کی ریئل پرائس 390 روپے ہے مگر مارکیٹ میں تقریبا پندرہ سو روپے کی فروخت ہوتی ہے۔ اور نیند والی دوائی کی قیمت 335 روپے ریئل پرائس مگر 2200 سو روپے کی فروخت ہوتی ہے مارکیٹ میں ۔لوگ مجبورا خریدتے ہیں۔
3۔دکاندار کو پتہ ہوتا ہے اور وہ خود بھی سیل روک کر شارٹ کرتا ہے۔ اور ذخیرہ اندوزی میں دکاندار اور دوسرے دونوں شامل ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بعض ائمہ کے نزدیک مذکورہ صورت بھی ذخیرہ اندوزی کی ہے جو کہ جائز نہیں ۔اور چونکہ علاج معالجہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جس کی وجہ سے بعض حالات میں حرام چیزوں کے استعمال کی بھی اجاز ت ہو جاتی ہے ۔ اس لیے دوائی کی ذخیرہ اندوزی میں ان ائمہ کے قول پر عمل کرنا ضروری ہے۔
بدائع الصنائع 5/129 میں ہے
ثم الاحتكار يجرى فى كل مايضر با لعامه عند ابي ىوسف رحمه الله قوتا او لا و عند محمد رحمه الله لا يجرى الاحتكار الا فى قوت الناس وعلف الدواب من الحنطه والشعير والتين والفت وجه قول محمد ان الضرر فى الاعم الاعنب انما يلحق العامة بحبس القوت والعلف فلا يتحقق الاحتكا ر الا به وجه قول ابى يوسف ان الكراهة لمكان الاضرار بالعامة وهذا لايختص بالقوت والعلف
© Copyright 2024, All Rights Reserved