• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دوائی تیار کرنے والی کمپنیوں سے مختلف قسم کے تحائف وزٹ ویزا وغیرہ وصول کرنا

استفتاء

1۔ آج کل ڈاکٹرز میڈیسن تیار کرنے والی کمپنیوں سے ان کی ادویات فروخت کروانے پر جو کمیشن ، ہدایا، تحفے تحائف، اور باہر ملک کے ٹکٹ، اور وزٹ ویزا کے اخراجات وصول کرتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2۔ ہماری SPAIDEX  کے نام سے ادویات کی فیکٹری ہے، فیکٹری اور اس کے جامد اثاثے تو اس شخص کی ملکیت ہیں مگر اس میں جو ادویات تیار ہوتی ہیں اس میں مختلف لوگوں کی رقم شامل ہے جو ایک ادارہ لوگوں سے شرکت و مضاربت کی بنیاد پر لیتا ہے اور ان کے ساتھ طے ہوتا ہے کہ ہم اسلامی طریقے کے مطابق ہی سرمایہ کاری کریں گے۔

3۔  جو ادویات تیار ہوتی ہیں ان کی سیل کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک بڑی بڑی کمپنیوں کی ڈیمانڈ آتی ہے ہم ان کو ادویات فروخت کرتے ہیں۔

دوسری پشاور سے لے کر جہلم تک جتنے فوجی ہسپتال ہیں ان میں قائم میڈیکل سٹورز کو ادویات سپلائی کی جاتی ہے، مگر میڈیکل سٹورز سے مریض حضرات  ہماری ادویات کو ڈاکٹرز کے کہنے پر خریدتے ہیں۔  اس لیے ہمارے نمائندے ڈاکٹروں کے پاس جا کر ادویات کا تعارف کراتے ہیں اور کچھ ادویات ان کو بطور نمونہ مفت میں دیتے ہیں، اس کے بعد جو ڈاکٹرز مریض کو ہماری ادویات خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں ہم ان ڈاکٹروں کو ادویات سے حاصل شدہ نفع کا 10 یا 15 فیصد بطور کمیشن دیتے ہیں اور بعض اوقات ماہ کے شروع یا آخر میں دوسری اشیاء بھی گفٹ کے طور پر دیتے ہیں۔ اس صورت میں نفع زیادہ ملتا ہے اور تسلسل کے ساتھ رہتا ہے۔

1۔کیا ہمارے لیے ڈاکٹروں کو کمیشن یا تحفے تحائف دینا شرعاً جائز ہے؟

اگر یہ رشوت ہے تو کیا ضرورت کی بناء پر اس کی اجازت ہوگی؟ کیونکہ مارکیٹ میں اس کے بغیر آج کل ادویات کی نکاسی (سیل ) ممکن نہیں ہے۔ شبہ اس لیے  ہے کہ ہم اپنی ادویات ہول سیل میں بڑی بڑی کمپنیوں کو فروخت کر سکتے ہیں جو کہ متبادل صورت ہے، مگر اس میں تسلسل نہیں ہوتا۔

2۔ آیا اس کمیشن کا شرعی متبادل ہے؟

3۔ مذکورہ بالا کمیشن دینے سے منافع پر کیا اثر ہوگا؟

4۔ اگر ہمارے  لیے ڈاکٹرز کو گفٹ اور کمیشن دینا جائز ہے تو کیا ہم اسے اخراجات میں شمار کر سکتے ہیں؟ یعنی جب شرکاء میں نفع تقسیم کرنا ہو تو کمیشن کو اخراجات میں شمار کر کے باقی نفع سب میں تقسیم کریں گے یا کمیشن ہمیں  اپنی طرف سے دینا پڑے گا؟

شبہ اس وجہ سے ہے کہ ارباب الاموال کی طرف سے اس طرح کمیشن دینے کی صراحتاً اجازت نہیں ہوتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مریض کی مالی حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اسے مناسب دوا لکھ کر دینا خواہ وہ کسی بھی کمپنی کی ہو یہ ڈاکٹر کے بنیادی فرائض میں شامل ہے، جس کی اجرت وہ تنخواہ یا فیس کی شکل میں وصول کر چکا ہے۔ اس لیے اس پر کمیشن درحقیقت رشوت ہے جس کا لینا درست نہیں، اور کمپنی کے لیے ایسی رشوت کا دینا بھی جائز نہیں کیونکہ یہ رشوت اپنے سے ظلم و نقصان کو دور کرنے کے لیے نہیں  ہے بلکہ زائد آمدنی کے لیے ہے۔

نوٹ: باقاعدہ طے شدہ تناسب سے کمیشن کے علاوہ ایسے ہدایا اور تحائف جو قیمتی ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے باحیا ڈاکٹر اپنے آپ کو مذکورہ کمپنی کی دوا  لکھنے پر کسی بھی درجے میں مجبور پاتا ہے ان کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ چھوٹے موٹے گفٹ جیسے قلم، پیڈ، کیلنڈر وغیرہ اس سے مستثنےٰ ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved