- فتوی نمبر: 8-134
- تاریخ: 18 جنوری 2016
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
*** اپنا مال ڈیلروں کو فروخت کرتی ہے پھر آگے عام گاہکوں کو وہ خود فروخت کرتے ہیں۔ *** کی پالیسی آجکل یہ ہے کہ 20 فیصد انوائس ڈسکائونٹ ہر ایک ڈیلرکو دے گی، یعنی 20 فیصد ڈسکائونٹ تو دینا ہی دینا ہے۔ مثلاً اگر 100 روپے کی چیز ہے تو وہ دکاندار کو 80 میں دی جاتی ہے اور اسے انوائس ہی 80 روپے کی بنا کر دی جائے گی۔
تاہم اس کے علاوہ *** کی ڈسکاؤنٹ سے متعلق ایک سیلز پالیسی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جو ڈیلر ماہانہ ایک لاکھ کی خریداری کرے گا تو اسے3% مزید ڈسکاؤنٹ دیا جائے گا یعنی مہینہ کے آخر میں *** ڈیلر کا کھاتہ (Ledger)چیک کرتی ہے، اگر اس نے مہینہ بھر ایک لاکھ کا مال *** سے منگوایا ہو تو *** اسے 3%مزید ڈسکاؤنٹ دیتی ہے ،جیسے100 کی چیز ہے جو20% انوائس ڈسکاؤنٹ(جو سب کیلئے ہے)کے بعد 80کی ہوگئی، اب *** اس 80 کا مزید 3%ڈسکاؤنٹ ڈیلر کو دے گی۔ اسی طرح اگر ڈیلر نے مہینہ بھر 3 لاکھ کا مال منگوایا ہو تو اسے مزید 5%ڈسکاؤنٹ ،اگر5لاکھ کا مال منگوایا ہو تو مزید7% ڈسکاؤنٹ ،اگر 10 لاکھ کا مال منگوایا ہو تو 9%مزید ڈسکاؤنٹ ڈیلر کو دے دیا جاتا ہے۔
1۔ مذکورہ بالا انوائس ڈسکاؤنٹ پالیسی کا کیا حکم ہے؟
2۔ مذکورہ بالا سیلز ڈسکاؤنٹ پالیسی کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔*** کی انوائس ڈسکاؤنٹ دینے کی پالیسی جائز ہے، کیونکہ اس میں ڈسکاؤنٹ کی مقدار فیصد کے لحاظ سے پہلے سے معلوم و متعین ہے، اور اس میں کسی قسم کا خطر و اندیشہ بھی نہیں ہے۔
2۔ سیلز ڈسکاؤنٹ کی پالیسی بھی جائز ہے۔ کیونکہ سیلز ڈسکاؤنٹ در حقیقت حطِ ثمن ( قیمت میں کمی) کا وعدہ ہے، جو ایک مہینے میں مخصوص مالیت کی خریداری کے ساتھ مشروط ہے۔ اس کے وجود میں نہ تو خطر و اندیشہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہم اسے قمار )جوا) کہہ سکیں، اور نہ ہی مقدار میں جہالت یا تردد ہے کہ جس کی وجہ سے ثمن کو مجہول(غیر متعین ) کہہ سکیں۔مقدار میں جہالت اس لئے نہیں ہے کہ مقدار فیصد کے لحاظ سے معلوم ہے، اور تردد اس لئے نہیں ہے کہ یہ ڈسکاؤنٹ کسی قرعہ اندازی کے ساتھ منسلک و مشروط نہیں ، بلکہ سامان کی خاص مقدار خریدنے پر یہ ڈسکاؤنٹ ضرور ملے گا۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب
© Copyright 2024, All Rights Reserved