• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ڈيلرز كو ادهار فروخت كرنا

استفتاء

STC بیرون ممالک سے میڈیکل لیبارٹری سے متعلق سامان (مشینیں اور کیمیکل وغیرہ) گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں کو امپورٹ کر کے دیتی ہے۔ STC کی طرف سے اپنے سٹاک میں سے ڈیلرز اور عام کسٹمرز کو بھی سامان فروخت کیا جاتا ہے۔STC کی طرف سے اپنے بعض ڈیلرز کو ادھار پر سامان فروخت کیا جاتا ہے اور مختلف ڈیلرز کے ادائیگی کا وقت بھی مختلف طے ہوتا ہے البتہ ایک چیز کی ایک ہی قیمت تمام ڈیلرز کے ساتھ طے نہیں کی جاتی بلکہ مدت میں فرق کے اعتبار سے اور ڈیلرز کے اعتبار سے قیمت میں کمی و بیشی کی جاتی۔ البتہ جو ایک ریٹ طے ہو گیا اس کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قیمت میں کمی و بیشی نہیں کی جاتی۔

1۔ایک چیز کی قیمت مدت اور گاہک کے مختلف ہونے کے اعتبار سے مختلف طے کر سکتے ہیں؟

2۔ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قیمت میں کمی و بیشی کر سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ایک ہی چیز کی قیمت مدت اور گاہک کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف طے کرنا شرعا جائز ہے۔

2۔جو ریٹ ایک دفعہ طے ہو جائے اس  میں ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اضافہ کرنا جائز نہیں۔

درر الاحکام فی شرح مجلۃ الاحکام، مادہ نمبر 473 میں ہے:

"(المادة: ۴۷۳) ای انه یجب ان یعتبرو یراعی کل ما اشترطه العاقدان من تأجیل الأجرة او تقسيطها او تأجيلها”

البحر الرائق، کتاب البیع، باب المرابحۃ والتولیۃ (جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 190)  میں ہے:

"لان للأجل شبها المبيع الا ترى انه يزاد في الثمن لاجل الأجل والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة”

الهدایہ ، كتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ(طبع: مکتبہ المصباح لاہور، جلد نمبر 3  صفحہ نمبر 74) میں ہے:

"لان الاجل لا یقابله شیئ من الثمن”

رد المحتار على الدر المختار، کتاب الصلح، فصل فی دعوی الدین (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر8 صفحہ نمبر486 ) میں ہے:

"لأنه اعتياض عن الأجل وهو حرام”

الهدایہ ، كتاب المكاتب، باب ما یجوز للمکاتب ان یفعلہ  (طبع: مکتبہ المصباح لاہور ،جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 330 )میں ہے:

"لأنه اعتياض عن الأجل وهو ليس بمال والدين مال فكان ربوا "

فقہ البیوع، مبحث الخامس، باب الاول (جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 545) میں ہے:

"وان زیادة الثمن من اجل الاجل، وان كان جائزا عند بداية العقد، ولكن لا تجوز الزيادة عند التخلف فى الاداء، فانه ربا في معنى "اتقضى ام تربى؟” وذلك لان الاجل، وان كان منظورا عند تعيين الثمن في بداية العقد، ولكن لما تعين الثمن، فان كله مقابل للمبيع، وليس مقابلا للاجل، ولذلك لا يجوز "ضع و تعجل”۔۔۔ اما اذا زيد فى الثمن عند التخلف في الاداء، فهو مقابل للاجل مباشرة لاغير ،وهو الربا”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved