- فتوی نمبر: 24-274
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > روزمرہ استعمال کی اشیاء
استفتاء
بینک کے ڈیبٹ کارڈ سے شاپنگ کرنے پر جو ڈسکاؤنٹ ملتا ہے کیاوہ لینا جائز ہے؟
وضاحت مطلوب ہے کہ: (1) کون سا بینک ہے؟
(2)کیا بینک بھی ڈسکاؤنٹ دیتا ہے یا یہ ڈسکاؤنٹ صرف بائع(vendor) کی جانب سے ہوتا ہے۔
جواب وضاحت: (1) میزان بینک
(2)90-95% ڈسکاؤنٹ بائع(vendor) کی جانب سے ہوتا ہے اور 5-10% کبھی کبھار بینک کی جانب سے بھی ہوتا ہےلیکن یہ صرف کرنٹ اکاؤنٹ والوں کو نہیں ملتا بلکہ میزان بینک کے ہر اکاؤنٹ ہولڈر کو ملتا ہے۔
نوٹ: اسلامی بینکوں کا یہ اصول ہے کہ وہ کوئی بھی سہولت خاص کرنٹ اکاؤنٹ والوں کو نہیں دیتے بلکہ جو سہولت سب اکاؤنٹ والوں کو دی جارہی ہو صرف وہ کرنٹ اکاؤنٹ والوں کو دیتے ہیں، جسے وہAcross the Board سے تعبیر کرتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ بینک کے ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے خریداری کرنے پر جو ڈسکاؤنٹ ملتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں:
- مکمل ڈسکاؤنٹ بائع کی جانب سے ہو۔
- کچھ ڈسکاؤنٹ بائع کی طرف سے اور کچھ بینک کی طرف سے۔
جس صورت میں مکمل ڈسکاؤنٹ بائع کی طرف سے ملتا ہے وہ لینا بہرصورت جائز ہے کیونکہ بائع کو اختیار ہوتا ہے کہ اپنے گاہک کو جتنا چاہے ڈسکاؤنٹ دے۔
البتہ دوسری صورت میں یعنی کچھ ڈسکاؤنٹ بینک کی طرف سے بھی ہو اس میں تفصیل ہے کہ جن لوگوں کے پہلے سے بینک اکاؤنٹ ہوں اور اکاؤنٹ میں مطلوبہ چیز کے بقدر رقم بھی ہو اور پھر اُن کو بینک کی طرف سے ڈسکاؤنٹ کی آفر ہو تو ایسے لوگ یہ ڈسکاؤنٹ لے سکتے ہیں اور جن لوگوں کا پہلے سے اکاؤنٹ نہ ہو یا اکاؤنٹ ہو لیکن اُس میں رقم نہ ہو تو ایسے شخص کو ڈسکاؤنٹ حاصل کرنے کے لئے اکاؤنٹ کھلوانا یا اُس میں رقم ڈلوانا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ کل قرض جر نفعا میں داخل ہے اور سود ہے۔ جبکہ پہلی صورت اکاؤنٹ کھلواتے وقت یا اُس میں پیسے رکھتے وقت معروف یا مشروط نہ ہونے کی وجہ سے یک طرفہ آفر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved