• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ڈیڑھ کنال جگہ میں سے پانچ مرلے جگہ مدرسے کےلیے وقف کی اور بعد میں کسی نے راستہ روک دیا تو اب اس جگہ کا  کیا کریں ؟

استفتاء

عرض یہ ہے کہ میں نے اپنی رہائش کے ساتھ ۵ مرلہ جگہ بچوں کےلئے   قرآن پڑھنے کے ثواب کی نیت سے چھوڑ  رکھی تھی یعنی مدرسہ کےلئے وقف زبانی کہا تھا ۔جس کے لیے  دو لاکھ پچھتر ہزار (2,75,000)کسی دوست نے دیئے تھے تاکہ  اس میں تعمیر ہوسکے اس دوران ہمارے بھائی کے بیٹے نے راستہ روک دیا لہذا اب علیحدہ راستہ نہیں ہے ۔متبادل جو بھی ہے آپ حل نکالیں۔

وضاحت:مذکورہ جگہ متعین نہیں کی اور نہ ہی اس جگہ کا کسی کو متولی بنایا گیا ہے۔

وضاحت مطلوب:وقف کے الفاظ کیا تھے؟

جواب:کہ اس جگہ  میں سے پانچ مرلہ جگہ مدرسہ کےلئے وقف ہے ۔

وضاحت مطلوب:کیا جگہ کی خریداری میں ذاتی پیسے    استعمال کئے یا کسی سے اس عنوان سے پیسے لئے تھے؟

جواب:یہ جگہ ابو جی نے گھر کےلئے لی تھی بعد میں یہ نیت کی ۔ٹوٹل جگہ ڈیڑھ کنال ہے   اس کی خریداری میں کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا ۔اس وقت مدرسہ کی نیت بھی نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں متولی اس جگہ کو فروخت کرکے مدرسہ کے لیے دوسری جگہ خرید سکتا  ہے۔

توجیہ:

مذکورہ صورت میں مدرسہ کی جگہ  اس طرح وقف کی گئی کہ نہ تو  جگہ متعین کی گئی اور نہ ہی متولی کے حوالہ کی گئی  بلکہ کل ڈیڑھ کنال میں سے پانچ مرلہ غیر متعین وقف کی گئی اس لئے اس جگہ کا  وقف امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک  لازم نہیں ہوا  اور وقف جب تک لازم نہ ہو اس کو تبدیل کرنا اور بیچنا درست ہے۔اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک  مذکورہ مدرسہ کی جگہ اگرچہ وقف ہوگئی ہے کیونکہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک غیر متعین کا وقف درست  ہوجاتا ہے اور اسی طرح اگر وقف کرنے والا کسی اور کو متولی نہ بنائے تو وہ خود متولی بن جاتا ہے۔  لیکن وقف کی جگہ سے اگر کسی صورت میں وہ نفع حاصل کرنا ممکن نہ ہوجس کے لیے وہ وقف  کی گئی ہے تو اس کو بدلنا جائز ہے ۔ مذکورہ جگہ سے بھی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے نفع اٹھانا ممکن نہیں لہذا  امام محمد رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ دونوں کے قول کے مطابق متولی اس جگہ کو فروخت کرکے مدرسہ کیلئے دوسری جگہ خرید سکتا ہے۔

ہندیہ(4/116) میں ہے:

ولو وقف من داره أو أرضه ألف ذراع جاز عند أبي يوسف ثم يزرع الأرض والدور فإن كانت ألف ذراع أو أقل كان كلها وقفا وإن كانت ألفي ذراع كان الوقف منها النصف وإن كانت ألفا وخمسمائة كان الوقف منها ثلثين

فتاوی تاتارخانیہ(8/14) میں ہے:

واذا وقف نصف ارضه على الفقراء فعلي قول ابي يوسف يجوز، وعلى قول محمد لا يجوز.

فتاویٰ شامی: (6/534) میں ہے:

(و لا يتم) الوقف (حتى يقبض) لم يقل للمتولي لأن تسليم كل شيء بما يليق به ففي المسجد بالإفراز و وفي غيره بنصب المتولي و بتسليمه إياه.

فتاوی تاتارخانیہ(8/56) میں ہے:

وفي الابانة: رجل وقف وقفا و لم يذكر الولاية لاحد؟ قيل: الولاية للواقف، وهذا قول ابي يوسف؛ لان عنده التسليم ليس بشرط، اما عند محمد لا يصح هذا الوقف، وبه يفتي.

فتاویٰ ہندیہ(4/168) میں ہے:

رجل وقف وقفا و لم يذكر الولاية لاحد قيل: الولاية للواقف وهذا على قول ابي يوسف رحمه الله تعالى لان عنده التسليم ليس بشرط، اما عند محمد رحمه الله تعالى فلا يصح هذا الوقف وبه يفتي كذا في السراجية.

بحر الرائق(5/345) میں ہے:

و نقل عن شمس الائمة الحلواني انه يجوز للقاضي و للمتولي ان يبيعه ويشتري مكانه اخر. وان لم ينقطع ولكن يؤخذ بثمنه ما هو خير منه للمسجد لايباع.

منحۃ الخالق علی بحر الرائق(5/367) میں ہے:

وقد روي عن محمد اذا ضعفت الارض الموقوفة عن الاستبدال والقيم يجد بثمنها اخرى اكثر ريعا كان له ان يبيعها ويشتري بثمنها ما هو اكثر ريعا… وفي الذخيره سئل شمس الائمة الحلواني عن اوقاف المسجد اذا تعطلت وتعذر استغلالها هل للمتولي ان يبيعها ويشتري بثمنها مكانها اخرى؟ قال نعم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved