• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دینی تربیت

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ ** میں ملازمین میں فضائل اعمال کی تعلیم بھی کروائی جاتی ہے لیکن تعلیم میں اگر ** کے مالک موجود ہوں تب تو تعلیم کی پابندی ہوتی ہے۔ اگر وہ موجود نہ ہوں تو پھر باقاعدگی سے تعلیم نہیں ہوتی۔اس کے ساتھ ساتھ ** کی طرف سے ابتدا میں معمول تھا کہ ملازمین کو کھانا فراہم کیا جاتا تھا اور کچھ عرصے تک اس پر عمل بھی ہوتا رہا لیکن اس میں ملازمین کی پسند اور نا پسند کی وجہ سے اس کو بند کر دیا گیا۔

-1            ** کے ملازمین کی ذہنی تربیت کو شریعت کس نظر سے دیکھتی ہے ؟

-2            سوال میں ذکر کردہ وجوہات کی بنا پر کھانا فراہمی کے سلسلے کو بند کرنا کیسا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

-1            شریعت کی نظر میں ملازمین کی دینی تربیت ایک مستحسن (اچھا اور پسندیدہ) امر ہے، کیونکہ حدیث پاک میں ارشاد نبوی ﷺ وارد ہے ’’کہ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ لہٰذا کمپنی کے ملازمین کمپنی کے مالکان کے ماتحت ہیں اس لیے اپنی استطاعت کی حد تک ان کی اصلاح کمپنی مالکان کی ذمہ داری میں داخل ہے۔

-2            اگر ملازمین کو کھانا فراہم کرنے کا عرف ہو تو کھانا یا اس کی قیمت فراہم کرنا ضروری ہے اور اس صورت میں مذکورہ وجوہات کی بنا پر اگرچہ کھانا فراہمی کے سلسلے کو بند کیا جا سکتا ہے لیکن نہ کھانا دیا جائے اور نہ قیمت دی جائے یہ جائز نہیں اور اگر ملازمین کو کھانا فراہم کرنے کا نہ عرف ہو اور نہ قانون ہو اور نہ ہی ملازمین کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت کھانا دینا طے کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں کھانا فراہمی کے سلسلے کو بند کیا جا سکتا ہے اور اس صورت میں کھانے کا معاوضہ دینا بھی ضروری نہیں۔

(۱)            شرح النووی علی مسلم: باب فضیلۃ الامیر العادل و عقوبۃ الجائر میں ہے:

قوله ﷺ (کلکم راع وکلّکم مسؤول عن رعتيه) قال العلماء الراعي هوالحافظ المؤتمن الملتزم صلاح ماقام عليه و ما هو تحت نظره ففيه أن کل من کان تحت نظره شئ فهو مطالب بالعدل فيه و القيام بمصالحه في دينه و دنياه و متعلقاته۔

(۲)           شرح صحیح البخاری لابن بطال :(۱ / ۱۲۹) میں ہے:

والنصيحة لازمة علي قدر الطاقة إذا علم الناصح أنه يقبل نصحه ويطاع أمره، وأمن علي نفسه المکروه. وأما إن خشي الأذي فهو في سعة منها.

(۳)           درر الحکام: (۱/۶۶۱) میں ہے:

ألمادة: (۵۷۶) لا يلزم المستاجر إطعام الأجير إلا أن يکون عرف البلدة کذلک‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved