- فتوی نمبر: 18-396
- تاریخ: 14 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مختلف اجناس کی خرید و فروخت ہوتی ہے، زمیندار اپنا غلہ آڑھتی کے پاس لاتے ہیں اور آڑھتی اسے فروخت کر کے اپنی کمیشن لیتا ہے۔
جس آڑھتی کے پاس مال آیا ہے وہ بعض اوقات خود خریدنا چاہتا ہے اس کے خریدنے کی چند صورتیں ہوتی ہیں:
-i بولی میں مذکورہ آڑھتی کی طرف سے کسی آدمی کو شریک کر دیا جاتا ہے اگر اس کے آدمی نے زیادہ ریٹ دے دیا تو مال اس آدمی کو مل جاتا ہے۔
-ii بولی میں اپنا آدمی تو شریک نہیں کرتا لیکن بولی میں جس نے سب سے زیادہ ریٹ دیا ہو اس ریٹ پر اپنے لیے رکھ لیتا ہے اور بولی والوں کو بعض اوقات بتا دیا جاتا ہے کہ اب یہ مال نہیں بکتا جس سے وہ چلے جاتے ہیں اور مال یہ خود رکھ لیتا ہے۔
-iii جب مال آتا ہے تو یہ آڑھتی پاس پاس والی دکانوں پر اپنے آدمی کو بھیج کر ریٹ معلوم کرتا ہے جس کا ریٹ زیادہ ہو تو اس ریٹ پر وہ خود خرید لیتا ہے۔
آڑھتی کے خود مال خریدنے کے مذکورہ طریقوں کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر زمیندارکی طرف سے آڑھتی کو خود مال خریدنے کی صراحتاً اجازت ہو تو پھر ایک روایت کے مطابق آڑھتی کا مذکورہ طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کے مطابق خود اپنے لیے مال خریدنا بھی جائز ہو گا۔
(۱) لما في الشامية (۵/۵۱۸)
و إن امره الموکل انه يبيعه من نفسه أو اولاده الصغار أوممن لاتقبل شهادته فباع منه جاز بزازية اه، حامديه۔
(۲) امداد الفتاویٰ (۲/۳۱۹) کتاب الوکالۃ مکتبہ دار العلوم کراچی
سوال: اگر سامان مذکورہ کا افسر متعلقہ جس کے ذریعے سے سامان نیلام ہوتا ہے۔ وہ کسی مشتری سے سامان کی قیمت دریافت کر کے کہ موجودہ صورت میں اس سامان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے اور پھر وہی قیمت وہ افسر داخل سرکاری خزانہ کر کے وہ سامان لے لیوے تو یہ بیع جائز ہے یا ناجائز جب کسی قسم کی بولی وغیرہ نہ دیوے۔
الجواب: اگر قانونا اس افسر کو ایسی کارروائی کی اجازت ہو تو جائز ہے ورنہ شرعاً بھی جائز نہیں۔
لان الوکيل لايجوزله المخالفة ولا ان يشتري لنفسهٖ
فتاوی مفتی محمود (۸/۶۵)
اگر موکل وکیل کو یہ اجازت دیدے کہ مبیعہ کو خود وکیل بھی خرید سکتا ہے۔ تو ایسی صورت میں وکیل کا مبیعہ کو اپنے لیے خریدنا ایک روایت کے مطابق درست ہے۔
(۳) وفي البزازيه۔ علي هامش الهندية: (۵/۴۷۵)
الوکيل بالبيع لايملک شراء ه لنفسه لان الواحد لايکون مشتريا و بائعا فيبيعه من غيره ثم يشتريه منه و ان باعه من ماذونه أو مکاتبهٖ أو ابنه الصغير لايجوز وان من ابنه البائع فعلي الخلاف۔
وان امره المؤکل ان يبيعه من نفسه أو أولاده الصغار أوممن لايقبل له شهادته فباع منهم جاز
© Copyright 2024, All Rights Reserved