• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دماغی مریض کی طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین میرے میاں کو تین دفعہ دماغی فالج کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر وقت غصہ میں رہتے ہیں ہر بات پر غصہ آتا رہتا ہے اور یہ الفاظ بولتے رہتے تھے کہ ’’میں تمہیں فیصلہ دے دوں گا‘‘یہ لفظ کئی دفعہ بول چکے ہیں جب سے وہ بیمار ہیں۔ ذہنی حالت ویسے تو ٹھیک ہے پس جب کسی بات پرغصہ آتا ہے تو اس کو بار بار دوہراتے رہتے ہیں۔ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ میری بہن کے سسر فوت ہو گئے تھے میں ان کی اجازت سے بہن کی طرف گئی پھر رات کومیرے جانے پرانہیں بہت غصہ آیا اور سب کو منع کردیا اب تم کہیں نہیں جائو گے ۔نیز میں چونکہ اپنے والد کے گھر رہتی ہوں کچھ اس وجہ سے سے بھی غصہ میں رہتے تھے اس دور ان انہوںنے مجھے کہاچلو میرے ساتھ اپنے والد کے گھر سے،میں نے جواب میں کہا ہم کہاں جائیں ؟آپ پہلے کچھ انتظام کریں پھر ہم چلتے ہیں ،اس پر کہاٹھیک ہے میرا تمہارا گزارہ نہیں ہوسکتا پھر خاموشی سے جانے لگے پھر ایک منٹ رک کر کہا ’’میں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ‘‘تب بھی غصے میں تھے لیکن تمیز سب کی تھی۔

آپ سے پوچھنا چاہ رہی ہوں مذکورہ صورت حال میں اسلام کی رو سے ہمارا نکاح باقی رہا یا نہیں ؟اگر طلاق ہوئی ہے تو کتنی ہوئیں ؟رجوع کی گنجائش باقی ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

۱)خاوند کا اس بارے میں کیا موقف ہے کیا وہ تسلیم کرتا ہے کہ میں نے یہ الفاظ بولے ہیں؟(۲)کیا اسے یہ بات تسلیم ہے کہ یہ الفاظ بولتے وقت میرے ہوش وحواس قائم تھے ؟(۳)اس موقع پر کوئی اور ایسی بات یا کام ہوا جو ان کے نارمل نہ ہونے کی علامت ہو؟(۴)ان کی دماغی حالت کے بابت ڈاکٹر کی رپورٹس کیا ہیں؟ کیا ڈاکٹر ایسے مریض کو نارمل قرار دیتے ہیں ؟اگر نہیں تو اس کا کوئی ثبوت ؟(۵)دماغی فالج کے بعد بقیہ زندگی معمول پہ ہے یا وہ انتشار اور بدنظمی کاشکار ہے ؟اگر ہے تو کس قسم کا تفصیل سے وضاحت کریں۔

جواب وضاحت

۱۔۲)خاوند کہتا ہے کہ اس نے یہ الفاظ

غصے میں کہے ہیں جن کا اس کو علم نہیں اور ہوش وحواس بھی نہیں۔(۳)اس وقت بس دھمکیاں دے رہے تھے کہ ماردوں گا یہ کردوں گا وغیرہ وغیرہ اور کوئی کام نہیں کیا مار پٹائی وغیرہ(۴)ڈاکٹر کی رپورٹس ہیں ساتھ لف ہیں۔(۵)عام حالات میں بھی مار پیٹ کرنا ،غصہ کرنا ،لڑائی جھگڑا کرنا یہ زندگی کا معمول ہے۔

شوہر کا بیان حلفی

بات یہ ہے کہ مجھے فالج اور لقوہ ہوا ہے بس میری کیفیت ایسی ہے کہ مجھے غصہ آ جاتا ہے اور اتنا غصہ آجاتا ہے کہ کچھ بھی علم نہیں ہوتا ہے اورجب طلاق کے الفاظ بولے گئے ہیں اس وقت بھی غصہ کی کیفیت ایسی ہی تھی یعنی بیماری کی وجہ سے مجھے کچھ علم نہیں کہ میں نے کیا کہا اور کتنی دفعہ کہا۔میں یہ اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جوبھی لکھا ہے سچ لکھا ہے (حنیف)

شوہر کے بیان کے متعلق بیوی سے مزید وضاحت :

۱)خاوند کا دعوی یہ ہے کہ اسے علم نہیں کہ اس نے کیا کہا اور کتنی دفعہ کہا؟جبکہ بیوی کے بیان میں یہ ہے کہ ’’تب بھی غصے میں تھے اور تمیز سب کی تھی‘‘تمیز ہونے سے کیا مراد ہے کیا بیوی یہ کہنا چاہتی ہے کہ خاوند کو طلاق کا لفظ بولتے وقت علم تھا کہ کیا بول رہا ہوں یا تمیز سے مراد کچھ اور ہے؟جوبھی ہو اسے متعین کیا جائے (۲)کیا بیوی کو خاوند کے بیان حلفی پر اعتمادہے؟

۱)بات یہ ہے کہ جب انہوں نے طلاق کے الفاظ بولے اس سے پہلے تھوڑا خاموش ہوئے اور پھر الفاظ بول کرچلے گئے بس ان کی بیماری ایسی ہے کہ وہ کچھ بھی کرلیتے ہیں بعد میں معافیاں مانگتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں چلا میں نے کیا کہا۔(۲)جی اعتماد ہے کیوں کہ ان کو دماغی فالج بھی پڑا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا شوہر ایسی حالت میںتھا کہ اسے یہ علم نہیں تھا کہ وہ طلاق کے الفاظ بول رہا ہے تب تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اور اگر ایسی حالت میں نہیں تھا بلکہ اپنے ہوش وحواس میں طلاق دی ہے تب طلاق واقع ہو گئی ہے۔

اب یہ کہ فی الواقع کیا صورت حال تھی یہ شوہر کا اور اللہ کا معاملہ ہے کسی تیسرے انسان کے لیے اس کا فیصلہ ممکن نہیں۔لہذا شوہر  اپنی آخرت اور زندگی بھر کے حلال وحرام کے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے خوددیکھے کہ اس نے طلاق ہوش وحواس میں دی ہے یا اسے بالکل علم ہی نہیں تھا کہ اس نے کیا الفاظ کہے ہیں۔

لما فی الهندیة353/3

ولایقع طلاق الصبی وان کان یعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمی علیه والمدهوش هکذا فی فتح القدیر

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved