- فتوی نمبر: 8-146
- تاریخ: 18 جنوری 2016
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک
استفتاء
کمپنی اپنے کلائنٹ کو 25% ڈسکائونٹ پر مال دیتی ہے۔عام طورپر ڈسکائونٹ اسٹرکچر (خاکہ)تمام کلائنٹس کیلئے ایک جیسا ہوتا ہے خواہ کلائنٹ کم مال منگوائے یا زیادہ منگوائے۔تاہم بعض صورتوں میں جبکہ کوئی بڑا پراجیکٹ ہو اور کلائنٹ نے لاکھوں کا مال منگوانا ہو اور کئی کمپنیاں اس پراجیکٹ کو لینے کی کوشش میں ہوں تو اس صورت میں پی کمپنی اپنے معمول کے ڈسکاؤنٹ سے ہٹ کر زیادہ ڈسکاؤنٹ کی آفر بھی کرتی ہے تاکہ اس بڑے پراجیکٹ کو لیا جائے اور کمپنی کی ساکھ مزید اچھی ہو۔ مذکورہ معاملہ کا کیا حکم ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پی کمپنی کا زیادہ سامان خریدنے والے کو زیادہ ڈسکائونٹ دینا جائز اور درست ہے۔
(١)حاشیة ابن عابدین (رد المحتار)5 156
وحاصل ما ذكره في البحر عن الذخيرة: أنه لو وهبه بعض الثمن أو أبرأه عنه قبل القبض فهو
حط، وإن حط البعض أو وهبه بعد القبض صح، ووجب عليه للمشتري مثل ذلك۔
(٢) العنایة شرح الهدایة 9/ 282
باع عينا بمائة ثم زاد على المبيع شيئا أو حط بعض الثمن جاز، والاستحقاق يتعلق بكل ذلك فيملك البائع حبس المبيع حتى يستوفي الأصل والزيادة، ولا يملك المشتري مطالبة المبيع من البائع حتى يدفعهما إليه. ويستحق المشتري مطالبة المبيع كله بتسليم ما بقي بعد الحط ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك يعني الأصل والزيادة.فإذا استحق المبيع يرجع المشتري على البائع بهما ، وإذا جاز ذلك فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا.
(٣) المحیط البرهاني للإمام برهان الدین ابن مازة: (6/579)
نوع آخر في الحط والإبراء عن الثمن وفي هبة الثمن من المشتری حط الثمن صحیح ویلتحق بأصل العقد عندنا کالزیادة……………………………… فقط والله تعالٰی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved