- فتوی نمبر: 8-48
- تاریخ: 12 اکتوبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
پی کمپنی اپنا مال ڈیلروں کو فروخت کرتی ہے پھر آگے عام گاہکوں کو وہ خود فروخت کرتے ہیں پی کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر کے ساتھ باقاعدہ تحریری ایگزیمنٹ ہوتا ہے جس میں قواعد و ضوابط (Terms and conditions) ہوتے ہیں۔ ڈسٹری بیوٹر کے ساتھ شروع میں ایک متعین فیصد طے کر لیا جاتا ہے کہ اسے اتنا فیصد ڈسکائونٹ دیا جائے گا، آگے وہ اپنے ڈیلروں کو اتنے فیصد تک ڈسکائونٹ دے، درمیان میں جو بچے گا وہ ڈسٹری بیوٹر کا نفع ہے۔ مثلاً پی کمپنی نے ڈسٹری بیوٹر کو 27% ڈسکائونٹ پر مال دیا، دسٹری بیوٹر نے آگے اپنے ڈیلر کو 24% ڈسکائونٹ دیا تو اس طرح 3% ڈسٹری بیوٹر کو بچ گئے۔ ڈسٹری بیوٹر پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ پی کمپنی کے مال کے ساتھ حریف کمپنی کا وہی مال فروخت نہیں کرے گا تاکہ اس کی توجہ منقسم نہ ہو۔ اگر کبھی ڈسٹری بیوٹر مندرجہ بالا پابندیوں کا خیال نہ کرے تو اسے کوئی جرمانہ وغیرہ نہیں کیا جاتا۔ البتہ تنبیہ کر دی جاتی ہے اور اس سے خرید و فروخت بھی جاری رہتی
ہے۔ آیا مذکورہ طریقہ کار شرعاً درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کا مذکورہ بالا طریقہ کار شرعاً درست ہے۔
(١) قال الله تعالٰی (بني اسرائیل: ٣٤)
”وأوفوا بالعهد إن العهد کان مسؤلا۔”
(٢) مجلة مجمع الفقہ السلامی۔ العدد الخامس۔ قرار رقم ٢،٣ـ٢:١٠٩٩)
”الوعد یکون ملزما للواعد دیانة إلا لعذر، و هوملزم قضاء إذا کان معلقاً علی سبب و دخل الموعود في کلفة نتیجة الوعد و یتحدد أثر الإلزام في هذه الحالة، إما بتنفیذ الوعد و إما بالتعویض عن الضرر الواقع فعلا بسبب عدم الوفاء بالوعد بلا عذر۔”
(٣) دررالحکام: (١/١٥٩،حق مجلس البیع) طبع:بیروت۔
(المادة:١٨٨): البيع بشرط متعارف يعني المرعي في عرف البلد صحيح والشرط معتبر مثلا : لو باع الفروة على أن يخيط بها الظهارة أو القفل على أن يسمره في الباب أو الثوب على أن يرقعه يصح البيع ويلزم على البائع الوفاء بهذه الشروط .
(٤) (دررالحکام:١٩/١٥٩)
(المادة ١٨٨) البيع بشرط متعارف يعني المرعي في عرف البلد صحيح والشرط معتبر… الشرط المتعارف ولو لم يكن من مقتضيات العقد جوز البيع معه استحسانا وصار معتبرا … وجواز البيع معه خلاف القياس ; لأن فيه نفعا لأحد المتعاقدين ووجه الاستحسان العرف والتعامل ; لأن الشرط متى كان متعارفا فلا يكون باعثا على النزاع ويحصل الملك المقصود بغير خصام .
(٥)بدائع الصنائع: (٤/٣٨١) طبع بیروت
وكذلك إن كان مما لا يقتضيه العقد ولا يلائم العقد أيضا لكن للناس فيه تعامل فالبيع جائز كما إذا اشترى نعلا على أن يحدوه البائع أو جرابا على أن يخرزه له خفا أو ينعل خفه ….. ( ولنا ) أن الناس تعاملوا هذا الشرط في البيع كما تعاملوا الاستصناع فسقط القياس بتعامل الناس كما سقط في الاستصناع.
(٢) درر الحکام (١/٢٤١ المادة: ٢٥٦)
حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح ومعتبر مثلا لو بيع مال بمائة قرش ثم قال البائع بعد العقد حططت من الثمن عشرين قرشا كان للبائع أن يأخذ مقابل ذلك ثمانين قرشا فقط………………………………………………………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved