• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دیت کی موجودہ قیمت، دیت کن لوگوں پر آئے گی، عاقلہ کا اطلاق، دیت کی ادائیگی کی مدت، دیت میں مقتول کے ورثاء کا حق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں

1۔ موجودہ دور میں دیت مروجہ اوزان شرعیہ اور روپے پیسوں کے مطابق کتنی ہے؟

2۔ کیا دیت صرف قاتل اپنے مال سے دے گا؟ یا دیت کی رقم دینے میں قاتل کے ساتھ کوئی اور بھی شریک ہو گا؟ اگر ہو گا تو ان شرکاء کی کیا تفصیل ہے؟ اور تمام شرکاء پر دیت کی کتنی کتنی مقدار لازم ہو گی؟

3۔ موجودہ دور اور عرف کے مطابق  "عاقلہ” کا اطلاق کس کس پر ہو گا؟ مثلاً ایک عالم دین، مدرس اور خطیب کے لیے "عاقلہ” کیا ہے؟

4۔ دیت کتنے عرصے میں ادا کی جائے گی؟

5۔ اس حاصل ہونے والی دیت کے، مقتول کے ورثاء میں سے کون سے وارث کتنی کتنی رقم کے حق دار ٹھہریں گے؟

از راہ کرم مکمل تفصیل کے ساتھ جلد جواب مرحمت فرما کر مشکور  وممنون فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔       دیت کی مقدار چاندی کے لحاظ سے دو ہزار چھ سو پچیس تولہ چاندی ہے۔ اس کی مالیت کا روپوں پیسوں میں اندازہ  چاندی کا ریٹ معلوم کر کے لگایا جا سکتا ہے۔

2۔       الف: اگر قاتل کی عاقلہ ہو (جس کی تفصیل 3 نمبر کے جواب میں مذکور ہے) تو دیت عاقلہ  پر آئے گی، جس میں قاتل خود بھی شریک ہوگا۔ لیکن اگر قاتل کی عاقلہ نہ ہو یا ہو لیکن اس کے افراد دیت میں اپنا حصہ ڈالنے پر تیار نہ ہوں اور اس بار ے میں کوئی خاص قانون بھی نہ ہو تو پھر واجب الاداء دیت صرف قاتل کو خود اپنے مال میں سے تین سالوں میں ادا کرنا ہو گی۔

ب: عاقلہ کے افراد پر فی کس سالانہ   درہم یعنی 4.536 گرام چاندی یا اس کی مالیت سے زیادہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ اگر قریب کی عاقلہ کے افراد کم پڑ جائیں تو اس کے بعد والی عاقلہ کے افراد کو اس میں شامل کیا جائے گا۔

مثلاً قاتل کا تعلق کسی بڑی جماعت کی ایک ذیلی شاخ سے ہو اور اس ذیلی شاخ کے افراد پر (ان کے کم ہونے کی وجہ سے) فی کس سالانہ دیت    درہم سے زائد آرہی ہو تو اس ذیلی شاخ سے اوپر والی جماعت کو اس میں شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر عاقلہ قاتل کے عصبہ ورثاء ہوں اور قریبی عصبہ پورے نہ پڑ رہے ہوں تو بعد والے عصبات کو اس میں شریک کیا جائے گا۔

3۔       موجودہ دور اور عرف کے لحاظ سے عاقلہ کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

اگر قاتل اہل دیوان سے ہو تو اس کے عاقلہ اہل دیوان ہیں، یعنی وہ عاقل بالغ مرد جن کے نام سرکاری دفتر میں اس لیے درج ہوں کہ وہ کسی خدمت کے عوض یا بوجہ ضرورت سرکاری خزانہ سے وظیفہ پا رہے ہوں، اسی لیے ان کو اہل عطاء بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اہل دیوان کی اس جماعت سے دیت وصول کی جائے گی جس سے قاتل کا تعلق ہو، دیت وصول کرنے کی آئندہ تفصیل کے مطابق اگر یہ جماعت کافی نہ ہو تو اس سے اوپر کی جماعت کو شامل کیا جائے گا، پھر اس سے اوپر کی جماعت کو۔

عاقلہ کا مدار تناصر پر ہے، اس زمانے میں تناصر کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً سیاسی جماعتیں، اہل حرفت، صنعتکاروں، تاجروں اور مزدوروں وغیرہ کی تنظیمیں، لہذا اگر قاتل کسی سیاسی جماعت یا کسی تنظیم کا رکن ہو گا تو اس کی عاقلہ یہ جماعت یا تنظیم ہو گی۔

اگر قاتل اہل دیوان سے نہ ہو اور کسی تنظیم یا سیاسی جماعت کا رکن بھی نہ ہو تو اس کے عاقلہ اس کے عصبات ہیں، اور ان پر وجوب دیت علیٰ ترتیب الارث ہے، پہلے ابناء پھر آباء پھر بھائی پھر بھتیجے پھر چچے پھر چچا زاد۔

قاتل سے بھی حصہ دیت وصول کیا جائے گا، خواہ وہ اہل دیوان سے ہو یا نہ ہو۔

اگر قاتل کے عاقلہ نہ ہوں تو بیت المال سے تین سالوں میں دیت ادا کی جائے گی، بشرطیکہ قاتل مسلم ہو اور اس کا کوئی وارث معروف نہ ہو، مثلاً لقیط ہو یا کوئی حربی اسلام لے آیا ہو، اگر قاتل ذمی ہو یا اس کا کوئی معروف وارث ہو، خواہ کتنا ہی بعید ہو یا بوجہ رق یا کفر محروم ہی ہو تو دیت بیت المال میں نہیں بلکہ قاتل کے اپنے مال میں سے، اسی طرح بیت المال میں دیت ہونے کی صورت میں اگر بیت المال موجود نہ ہو یا اس میں گنجائش نہ ہو تو دیت قاتل کے مال میں ہو گی، جو تین سالوں میں وصول کی جائے گی۔

دیت تین سالوں میں وصول کی جائے، ایک شخص سے ایک سال میں   درہم 4.536 گرام سے زیادہ نہیں لیے جائیں گے۔

(ماخوذ از: احسن الفتاوٰی: 8/ 540)

4۔      تین سال میں۔

5۔       مقتول کے ورثاء وراثت میں اپنے اپنے حصوں کے بقدر حق دار ہوں گے۔۔۔۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved