• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

2 بیٹے، 3 بیٹیاں

استفتاء

ایک بیٹی کی وراثت اور وراثت کی تقسیم کے بارے میں رہنمائی  فرما کر مشکور فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔

میرے والدصاحب *** نے  اپنی زندگی میں تقریباً تیس، چالیس سال قبل اپنا کاروبار کرتے ہوئے اپنی گرہ سے ایک عدد پلاٹ دس مرلہ خرید کیا۔ ہم تین بہنیں اور دو بھائی ہیں جو کہ سب کے سب باحیات ہیں ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی تیس، پینتیس سال قبل ہم تینوں بہنیں اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم آباد ہیں اور ہماری شادیوں کے بعد دونوں بھائی اور والد صاحب اکٹھے ہی ایک گھر میں رہائش پذیر تھے اور والد صاحب اپنا کاروبار کرتے تھے۔ ہمارے والدصاحب نے اپنی زندگی میں کسی بھائی کو جائیداد میں سے اس کا حصہ دے کر الگ الگ نہ کیا تھا۔ ان میں سے ایک بھائی سکول میں ٹیچر تھا۔ اس نے والد صاحب کی زندگی میں ہی اسی دس مرلہ والے پلاٹ پر ایک گھر تعمیر کیا اور پھر اس گھر میں ہمارے دونوں بھائیوں اور والدصاحب نے رہائش اختیار کرلی۔ میرے والد صاحب کی کچھ زرعی زمین پچیس کنال بھی تھی۔ اور ہے۔ جس کی جتنی بھی فصل وغیرہ آتی تھی وہ بھی دونوں بھائیوں اور والد صاحب کے استعمال میں تھی۔ میرے والد صاحب کی بازار میں ایک عدد ذاتی دکان بھی تھی۔ اور ہے۔ ہم تینوں بہنوں کی شادیوں کے بعد دکان کی جتنی بھی آمدن تھی وہ بھی میرے دونوں بھائیوں  اور والد صاحب کے استعمال میں تھی۔ عرصہ  دس گیارہ سال ہوئے  میرے والد صاحب بیمار ہوئے اور پھر بیماری کی حالت میں ہی اسی دس مرلے کے پلاٹ پر تعمیر شدہ گھر میں رہتے ہوئے میرے دونوں بھائیوں کی موجودگی میں انتقال کر گئے۔

انتقال کے وقت میرے والد صاحب نہ تو کسی کے مقروض تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنی کسی چیز کو ہبہ کر دینے کی وصیت کی تھی۔

میرے والدصاحت کا انتقال ہوئے دس، گیارہ سال  کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اور والد صاحب کا تمام ترکہ میرے دونوں بھائیوں کے استعمال میں ہے۔ اس دس مرلہ والے پلاٹ پر تعمیر شدہ گھر میں میرے دونوں بھائی رہائش پذیر ہیں۔ اور میرے والدصاحب کی زرعی زمین اور اس کی جو بھی فصل ہے والد صاحب کے انتقال سے لے کر آج تک میرے دونوں بھائیوں کے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ والد صاحب کی اپنی  بازار والی ایک عدد دکان  اور اس  دس مرلہ والے مکان کے علاوہ  میرے والد صاحب کا اپنا ذاتی ایک عدد پرانا مکان ہے وہ بھی میرے دونوں بھائیوں کے پاس ہے خواہ وہ اسے کرایہ پر دیں یا اپنے استعمال میں رکھیں وہ مکمل ان کے  کنٹرول میں ہے۔ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے ایک بھائی نے ایک عرصہ تک کسی کے ساتھ مل کر والد صاحب کی اسی ذاتی دکان میں کاروبار بھی کیا تھا اس کی جو بھی آمدن آتی تھی وہ میرے دونوں بھائیوں کے استعمال میں تھی۔

میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مندرجہ بالا کسی بھی چیز سے اور والد صاحب کے بقیہ ترکہ میں سے میرے بھائیوں کی طرف سے کبھی بھی مجھے کچھ بھی حصہ نہ دیا گیا ہے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے دوسرے بھائی نے اپنا سکول بنا لیا جو کہ اب بھی سکول چلا رہا ہے اورایک بھائی سرکاری ملازم ٹیچر ہے۔ اور والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے بھائیوں نے مزید ایک عدد مکان اور دو عدد پلاٹ خرید کیے جن میں سےایک عدد پلاٹ لاہور میں اور دوسرا پلاٹ اس دس مرلہ والے گھر کے قریب ہی واقع ہے۔ اور والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے بھائیوں نے دس مرلے والے گھر جہاں والد صاحب کا  انتقال  ہوا تھا اس کے اوپر دوسری منزل پر ایک عدد کمرہ بھی اپنی گرہ سے مزید تعمیر کیا ہے۔

اب آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ مندرجہ بالا حالات کی روشنی میں کن کن چیزوں سے بہن کا حصہ بنتا ہے  اور کتنا کتنا حصہ بنتا ہے؟ جبکہ میرے بھائی اپنی بہن کو اس کا وراثت میں شرعی حصہ دینے پر تیار   ہیں تاکہ بہن اپنےبھائیوں سے صرف اپنا شرعی حصہ لے سکے اور کسی فریق کے ساتھ ظلم اور زیادتی نہ ہو۔

نوٹ: ہماری والدہ کا  والد صاحب سے کافی عرصہ پہلے انتقال ہو چکا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے والد کے اپنی ذاتی ملکیت میں وفات کے وقت جو کچھ بھی تھا  وہ سب ترکہ میں شامل ہوگا، چاہے نقدی رقم ہو، سامان ہو، دکان ہو، یا پلاٹ ہو۔ البتہ جس پلاٹ پر بھائی نے اپنے پیسوں سےعمارت بنائی ہے وہ عمارت اس بھائی کی ہے وہ ترکہ میں شامل نہیں ہوگی۔ جبکہ پلاٹ ترکہ ہوگا۔

والد کے تمام ترکے کو سات برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس میں سے دو ، دو حصے ہر بھائی کو جبکہ ایک ایک حصہ ہر بہن کو ملے گا۔صورت تقسیم یہ  ہے:

7

2 بیٹے                           3 بیٹیاں

2+2                          1+1+1                      فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved