- فتوی نمبر: 4-319
- تاریخ: 08 دسمبر 2011
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
1۔ *** نے اپنے انتقال کے وقت سات یا آٹھ ورثاء چھوڑے۔ اس کے انتقال کو 45 سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے۔ لیکن متوفی کی جائیدادیں ابھی تک اس کے ورثاء میں تقسیم نہیں ہوئی ہیں۔ کئی ورثاء کا انتقال ہو چکا ہے۔ اور ان کے ورثاء اب جائیدادوں میں اپنے حصے اور اس کی آمدنی میں اپنے حصےطلب کر رہے ہیں۔ جائیدادیں شہر کے ایسے علاقوں میں ہیں جہاں پگڑی کا رواج ہے۔ اس نظام میں پگڑی کے نام سے بڑی بڑی رقمیں جو لاکھوں اور کروڑوں روپیوں میں ہوتی ہیں وصول کی جاتی ہیں۔ جب کرایہ دار تبدیل ہوتا ہے تو رسید بدلوائی کے نام پر نئے کرایہ دار سے پھر خطیر رقم وصول کی جاتی ہے۔ اس لین دین کا کوئی حساب کتاب یا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ یہ چونکہ کالے دھن کا نظام ہے لہذا کوئی شخص رقم لینے والا اور دینے والا کسی قسم کی کوئی گواہی یا شہادت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور سو فیصد لوگ حلفیہ بیان میں دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ کرایہ برائے نام وصول کیا جاتا ہے اور اس کا ریکارڈر کھا جاتا ہے۔ جو عموماً جائیداد کی دیکھ بھال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی ناکافی ہوتا ہے۔ اب ایسے ورثاء جو جائیدادوں پر قابض اور متصرف نہیں رہے ہیں یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پگڑی کی وصول کردہ رقم میں سے انہیں حصہ دلوایا جائے اور م*** مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو ورثاء ترکہ کی جائیدادوں پر قابض اور متصرف رہے ہیں انہوں نے *** کے انتقال کے بعد دیگر متعدد جائیدادیں خریدی ہیں اور یہ جائیدادیں ترکہ کی جائیدادوں کی آمدنی سے خریدی گئی ہیں۔ لہذا ان جائیدادوں کو تمام ورثاء کی جائیداد قرار دے کر اس کو تمام ورثاء میں اسی طرح تقسیم کر دیا جائے جیسے کہ *** کی جائیدادوں کو تقسیم کیا جائے گا۔ کچھ ورثاء نے اس 45 سال کے عرصہ میں اور بھی تصرفات کیے ہیں اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
الف: یہ بات یقینی ہے کہ ترکہ میں جو جائیدادیں ہیں ان کو پگڑی پر دے کر خطیر آمدنی حاصل کی گئی ہے۔ شہادت اور گواہی کی غیر موجودگی میں موصول شدہ آمدنی کا تعین نہیں کیا جاسکتا تو اب جو رثاء اس آمدنی سے محروم رہے ان کو پگڑی کی آمدنی میں سے حصہ کیسے دلایا جائے؟
ب: کیا شرعی طور پر یہ ممکن ہے کہ جس طرح ترکہ کی جائیداووں کو فروخت کر کے اس سے حاصل شدہ رقم کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے گاجس کی تعداد اب کئی سو ہوچکی ہے اسی طرح انصاف کی بہم رسانی کے لیے ان جائیدادوں کو بھی جو قابض اور متصرف ورثاء نے *** کے انتقال کے بعد خریدی ہیں اور جس کے بارے میں وہ یہ ثابت نہیں کر سکے ہیں کہ اس کو انہوں نے اپنی علیحدہ ذاتی آمدنی سے خریدا ہے، فروخت کر کے *** کے تمام ورثاء میں تقسیم کر دی جائے تاکہ و رثاء محروم رہے ہیں ان کی کسی حد تک اشک شوئی ہوجائے۔
ت: کیا ورثاء میں سے کوئی شخص ان غیر منقسم جائیدادوں یا کسی ایک جائیداد میں سے اپنا حصہ کسی اور وارث یا کسی دیگر شخص کو ہبہ کر سکتا ہے؟ اور اگر وہ ہبہ کر سکتا ہے تو ان حالات میں ہبہ کے لیے کیا شرائط ہونگی۔ جائیدادیں چونکہ غیر منقسم ہیں اس لیے ہبہ کرنے والا شخص قبضہ دینے کی شرط جو کہ ہبہ کی شرائط میں سے ہے اس کو کیس پوری کر ے گا۔ جبکہ ہبہ کرنے والا شخص خود کسی بھی حصہ جائیداد پر ابھی تک بلا شراکت غیرے قابض و متصر ف نہیں ہے۔
ث: کیا شریعت کے قانون میں یہ بات موجود ہے ک جب تک مرنے والے کی جائداد ا کے تمام ورثاء میں تقسیم نہ ہوجائے اورتمام ورثاء اپنے اپنے حصہ پر قابض اور متصرف نہ ہو جائیں تمام جائیداد تمام ورثاء کی مشترکہ ملکیت میں ہوتی ہیں اور غیر منقسم جائیداد کے ہر حصہ پر تمام ورثاء مشترکہ طور پر مالک اور قابض متصور ہوتے ہیں۔ اور اجازت کے بغیر کیسے کسی بھی حصہ جائیداد کو ہبہ یا فروخت کر سکتا ہے؟ اور غیر منقسم جائیداد کے کسی حصہ کا قبضہ کسی دیگر شخص کو کیسے دے سکتا ہے؟
ج: کیا مشترکہ ورثاء میں سے کوئی دو یا دو سے زائد افراد اپنا اپنا گروپ بنا کر کمپنیاں تشکیل دے سکتے ہیں اور پھر یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ ان ورثاء نے مثلا چار بیٹیوں اور تین بیٹیوں میں سے دو بیٹیوں کے اہل خانہ نے اپنے غیر منقسم حصص کی حد تک جائیدادوں کو کمپنی کی ملکیت میں دیدیا اور پھر ان غیر منقسم حصص کو کمپنیوں کی جائیداد شمار کرتے ہوئے ان حصص کو کمپنی کے ڈائریکٹران کی حیثیت سے اپنے انتظام و انصرام میں سے لیا۔ یہ ورثاء ان کمپنیوں کے تمام مالی فواجد دوسرے ورثاء کو خارج کر کے اپنے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان تمام معاملات کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
ج: کیا قانون شریعت کے تحت کوئی شخص بحیثیت وارث غیر منقسم جائیداد میں سے اپنا حصہ کسی شخص قانون مثلاً کمپنی کو ہبہ کر سکتا ہے اور اگر وہ ایسا کر سکتا ہے تو اس قسم کے ہبہ کے مؤثر ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں اور ان کو کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے؟
ح: کیا قانون شریعت میں اس کی اجازت ہے کہ ورثاء میں سے کچھ لوگ مثلاًایک بیٹا اور اس کے اہل خانہ اور دوسرا بیٹا اور اس کے اہل خانہ اپنے الگ الگ گروپ بنالیں۔ اور پھر یہ دو گروپ ایک مصالحت نامہ راضی نامہ کی دستاویز ترتیب دیں اور اس کو رجسٹر کرالیں۔ جس کی رضامندی دوسرے ورثاء سے حاصل کریں نہ اس کی پیشگی اطلاع دوسرے ورثاء کو دیں اور اس مصالحت نامہ میں ایک گروپ غیر منقسم جائیدادوں میں اپنا حصہ متعین کر لے اور دوسرا گروپ اپنا حصہ متعین کر لے اور پھر ایک گروپ کسی ایک یا زیادہ جائیدادوں میں اپنے حصص سے دستبردار ہو کر دوسرے گروپ کو اس کا مالک قرار دیدے اور دوسرا گروپ اپنے حصص سے دستبردار ہو کر اس کا مالک قرار دیدے۔اور اس طرح ایک گروپ کسی ایک جائیدا د کلی اور بلا شراکت غیرے مالک بن جائے اور دوسرا گروپ کسی دوسری جائیداد کا کلی ااور بلا شراکت غیرے مالک بن جائے اور یہ بھی آپس میں قول و قرار کر لیں کہ اصل مرحوم مالک کے کچھ ورثاء جو اس درمیان میں انتقال کر گئے ہیں انہوں نے ان میں سے کسی ایک کو اپنا حصہ جو وراثت میں بنتا تھا اس کو ہبہ کر دیا تھا یا فروخت کر دیا تھا۔ اور اس حصہ جائیداد کو بھی اس اس مصالحت نامہ کے تحت دونوں گروپوں کے درمیان تقسیم کرلیں اور دوسرے ورثاء کو ایسی جائیدادوں اور اس کے منافع سے محروم کردیں۔ کیا جائیداد کے اصل مالک جو 45 سال پہلے انتقال کر گئے اور دوسرے ورثاء جو اس دوران وقتا فوقتا انتقال کرتے رہے ان کی جائیدا دوں کو چند ورثاء اس طرح آپس میں تقسیم کر کے دوسرے ورثاء کو ان جائیدادوں سے محروم کر سکتے ہیں۔
2۔ ایک شخص *** نے اپنے انتقال کے وقت متعدد جائیدادیں ترکہ میں چھوڑیں۔ ورثاء میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں۔ ان سب کی شادیاں ماں اور باپ کی زندگی میں ہو چکی تھیں۔ بیٹیاں باپ کے ترکہ میں جو منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد یں ہیں ان میں اپنا حصہ شریعت کے مطابق طلب کر رہی ہیں۔ بیٹے نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دو بہنیں اس کے ماں اور باپ کی اولاد ہیں اوران میں سے ایک بہن نے ایک قادیانی شخص سے شادی کر لی ہے اس لیے وہ ماں اور باپ کے ترکہ سے محروم ہوگئی ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے اس کی شادی اس کے باپ نے کروائی تھی اور نکاح کے وقت اس کا حقیقی چچا وکیل تھا۔ اس بہن کا موقف یہ ہے کہ اس کا شوہر قادیانی نہیں مسلمان ہے اس کا شوہر بھی یہی کہتا ہے کہ وہ قادیانی نہیں مسلمان ہے۔ بھائی کا یہ بھی موقف ہے کہ دو بہنیں اس کے باپ اور ماں کی اولاد نہیں ہیں۔ بلکہ وہ دونوں الگ الگ ملازمین کی اولاد ہیں جن کو اس کےوالد نےبہت کم عمری میں گود لے لیا تھااور اپنی محبت کے اظہار کے لیے ولدیت میں اپنا نام لکھ دیا تھا۔ اسکول میں داخلہ کے وقت بھی ولدیت میں اپنا نام لکھ دیا تھا اور نکاح کے وقت بھی ولدیت میں اپنا نام لکھ دیا تھا اسی طرح ان لڑکیوں کے نام پر کچھ جائیدادیں خریدیں اور جائیدادوں کے دستاویزات میں بھی اپنی ولدیت لکھ دی۔ ان جائیداادوں کے بارے میں کچھ تنازعات ہوئے اور باپ نے لڑکیوں کی طرف سے عدالت میں مقدمات دائر کیے اور ان میں بھی اپنی ولدیت لکھائی۔ غرض باپ اور ماں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اظہار نہیں کیا کہ وہ دونوں لڑکیاں ان کی سگی بہنیں اولادیں نہیں ہیں۔ بھائی کا کہنا ہے کہ انتقال سے کچھ عرصہ پہلے اس کے باپ نے اسے حقیقت واقعہ سے مطلع کیا۔ بھائی کا اصرار ہے کہ یہ دونوں بہنیں اور دونوں سگی بہنیں اپنے خون ک نمونہ دیں تاکہ ان کا موازنہ اس کے خون اور اس کی ان دو بہنوں کے خون سے کیا جائے جن کو بھائی اپنی بہنیں تسلیم کرتا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے اور چاروں بہنوں کا ڈی۔ این ۔ اے ٹیسٹ کرایا جائے اور ڈی۔این ۔اے ٹیسٹ کی رپورٹ کی روشنی میں ان دو بہنوں کی ولدیت کا معاملہ طے کیا جائے جن کے بارے میں اس نے تنازعہ کھڑا کیا ہے۔جبکہ چاروں بہنوں میں سےکوئی بھی اپنے خون کا نمونہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور ولدیت کا معاملہ طے کرنے کے لیے ڈی۔ این ۔ اے ٹیسٹ کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ماں باپ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ان دو بہنوں کے نسبت کے بارے میں مشکوک ہونے یا ان کی اولاد نہ ہونے کے بارے میں کوئی اظہار نہیں کیا۔ لہذا باپ اور ماں کے انتقال کے بعد بھائی کو دو بہنوں کی ولدیت سے انکار کا حق نہیں ہے۔ اور انہیں ڈی۔ این ۔ اے ٹیسٹ کرانے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ مندرجہ بالاحالات میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
الف: کیا متوفی *** کا بیٹا اپنی ایک بہن کو متوفی کی جائیدادوں میں اس بنا پر وراثت سے محروم کر سکتا ہے کہ اس بہن نے قادیانی سے شادی کر لی ہے۔
ب: کیا قانون شریعت کے تحت بھائی پنی بہنوں کو عدالت کے ذریعہ اس چیز پر مجبور کرسکتا ہے کہ ولدیت کے تعین کے لیے وہ اپنے خون کا نمونہ دیں اور پھر ڈی۔ این ۔ اے ٹیسٹ کی روشنی میں اس معاملہ کا فیصلہ کیا جائے؟
ث: کسی بھی شخص کی ولدیت سے انکار کا حق صرف ماں اور باپ کو ہے یا ان کے انتقال کے بعد کوئی اور شخص مثلا بھائی، بہن یا کوئی اور رشتہ دار ولدیت سے انکار کر سکتا ہے؟
ث: ان حالات میں جبکہ باپ ا ور ماں نے اپنی پوری زندگی میں از ابتدا تا انتہا دونوں لڑکیوں کو اپنی حقیقی اور سگی اولاد قرار دیا۔ ان کا بھائی ولدیت کو متنازعہ کر سکتا ہے؟
ج: کیا قانون شریعت کے تحت ماں اور باپ کے اقرار کی موجودگی میں ان لڑکیوں کی ولدیت کے تعین کے لیے ڈی۔ این ۔ اے ٹیسٹ کرایا جاسکتا ہے؟
ح: کیا قانون شریعت کے تحت ولدیت کے تعین کے لیے ڈی ۔ این ۔ اے ٹیسٹ کو مدار فیصلہ ٹھہرایا جاسکتا ہے یا شریعت میں جو شہادت مثلاً اقرار اور قرائن معتبر شمار ہوتے ہیں وہ فیصلہ کی بنیاد ٹھہریں گے؟
خ: کیا ڈی ۔ این ۔ اے ٹیسٹ سے انکار کی وجہ سے قانون شریعت کے تحت متعلقہ بہنوں کے خلاف مخالفانہ استخراج لیا جاسکتا ہے۔
د: مندرجہ بالا حالات میں ان دو لڑکیوں کی ولدیت کے تعین کے لیے شریعت میں کس قسم کی گواہی اور شہادت معتبر ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
2۔ اس مسئلے کو دو طریقوں سے لے سکتے ہیں:
الف: بھائی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے باپ نے اس کو بتایا تھا کہ دو لڑکیاں غیر کی اولاد ہیں۔ بھائی نے اس دعوے پر کوئی گواہ یا دیگر ثبوت پیش نہیں کیے۔
ب: بیٹیاں مدعی ہیں کہ وراثت میں ان کا حق ہے اور وہ مورث کی حقیقی بیٹیاں ہیں۔ ان کے لیے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شہرت ہی کافی ثبوت ہے اور جگہ جگہ ولدیت میں مورث کا نام ہونا کافی ہے۔
DNA ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ DNA ٹیسٹ کا نتیجہ بتانے میں انسانی کاوش کو دخل ہے اس وجہ سے اس میں خطا ہونا بھی ممکن ہے۔
غرض بھائی کا دعویٰ غلط ہے اور DNA ٹیسٹ کرانے پر اصرار سخت جاہلیت ہے۔ اس طرح ایک بہنوئی کو بلاوجہ قادیانی کہہ کر بھی بہن کو وراثت سے محروم کرنا انتہائی غلط بات ہے۔
نمبر 1۔ مروجہ پگڑی تو رشوت کی صورت ہے جو ناجائز ہے۔ دیگر وارث پگڑی میں تو حصہ دار نہ بنیں البتہ جائیدادیں چونکہ کرایہ پر دی گئی ہیں اس لیے پگڑی کے بغیر مارکیٹ ریٹ کے مطابق جو کرایہ بنتا ہے وہ اس کرایہ میں اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتے ہیں ( یاد رہے کہ پگڑی لینے کی صورت میں کرایہ کم ہوتا ہے )۔
ب: مشترکہ مال سے جو جائیدادیں پائیں وہ بھی مشترکہ ہوں گی۔
ت: مشاع حصہ کا ہبہ امام محمد رحمہ اللہ اورائمہ ثلاثہ کے نزدیک جائز ہے اور ہبہ تام و لازم ہونے کے مالکیہ کے نزدیک قبضہ شرط نہیں ہے۔ اس لیے مالکیہ کے نزدیک مذکورہ ہبہ صحیح ہوگا۔
ث: تقسیم جائیداد سے پہلے بھی مشاع حصے کو فروخت کیا جاسکتا ہے۔ غیر منقولہ جائیداد کی فروختگی کی صحت کے لیے قبضہ میں ہونا شرط نہیں ہے۔
ج، ح، خ: کے جواب میں اوپر دیے گئے چار نکات ہی کافی ہوں گے۔ انشاء اللہ ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved