• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دو بیٹوں کی کمائی سے بنائی گئی والد کی جائیداد کی تقسیم

استفتاء

زید  کا   بیان  :

کیا فرماتے ہیں  مفتیان کرام و علماء عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسمی  عبداللہ  مرحوم  جن کا انتقال فروی 2025 ء میں ہوا ہے ان کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اور ایک دوسری بیوی ہے اس سے کوئی اولاد نہیں ہے جبکہ پہلی بیوی اختر خان کی زندگی میں انتقال کر گئی تھی ۔عبداللہ    ریلوے ملازم تھا ۔مرحوم کا بڑا بیٹا  زید  سعودی عرب  میں برسر روزگار تھا ۔اپنی کمائی اپنے والد مرحوم کو دیتا رہا۔والد مرحوم اس کی کمائی اور اپنی تنخواہ سے گھر کا خرچ چلاتے رہے اور کچھ بچت بھی  کرتے  رہے۔اس بچت کی ہوئی رقم سے والد مرحوم نے لاہور میں دو  مکان خریدے  ( جو کہ اوقاف کی جگہ پر تھے)اور گاؤں میں بھی  زمینیں  خریدیں ۔ بعد میں (تقریبا ً2005ء  میں ) بڑے بیٹے  زید  نے اپنی کمائی سے ایک مکان  تعمیر کیا  ( جس کا رقبہ  دو مرلہ اور مالیت تقریبا ً   20 لاکھ تھی) اس  کے بعد وہ   والد صاحب سے الگ ہوگیا ۔ لیکن کمائی اس کے بعد بھی برابر والد صاحب کو ہی دیتا رہا ۔یہ مکان  زید  نے اپنے نام ہی سے خریدا ۔  عبداللہ مرحوم نے اپنی زندگی میں سن 2013 اور 2014 میں اپنے بڑے دو بیٹوں  زید  اور  خالد کو کچھ ناراضگی کی بنا پر اپنی لاہور والی جائیداد  سے بے دخل کر دیا اور اپنے چھوٹے بیٹوں  بکر  اور  عمر  کے نام سٹام کرا دی اور قبضہ بھی ان دونوں کودے دیا۔

آیا اس پراپرٹی میں قرآن و سنت کی روشنی میں دوسری بیوی اور چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کا حصہ ہے؟ اگر ہے تو کتنا کتنا ہے  ؟

نیز       زید نے جو  مکان  اپنی کمائی سے خریدا ہے  اور اس میں یہ خود  رہائش پذیر بھی  ہے، اس میں بقیہ بہن بھائی حقدار ہیں  یا  نہیں ؟

تنقیح : (1)زید کے ساتھ چھوٹا بھائی  خالد بھی   کماتا رہا اور وہ بھی والد صاحب کو پیسے دیتا رہا ۔ ان دونوں کی کمائی سے والد صاحب نے دومکان بنائے اور ایک  زمین والد صاحب کو ریلوے  کی طرف سے   ملی تھی جس پر  مکان کی  تعمیر کی گئی    ۔ جبکہ دو چھوٹے بھائی  بکر  اور  عمر  بہت چھوٹے تھے اور کچھ کماتے نہیں تھے ۔

(2)ہمارے والد صاحب کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ کبھی کسی بیٹے سے کسی بات پر خوش ہوئے تو سارا مکان اس کو دے دیا اور دوسرے سے کسی بات پر ناراض ہوئے  تو اس کو جائیداد سے بے دخل اور عاق کردیا حالانکہ اسی کی کمائی سے مکان بنائے گئے تھے ۔ جیسے  خالد   والد صاحب سے یہی کہتا تھا کہ کماتا  میں ہوں اور آپ  چھوٹے دو بھائیوں کو  دے دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے  والد صاحب نے  غصے میں اس کو  جائیداد سےبے دخل کردیا تھا ۔  انہوں نے  ریلوے والا گھر  عمر  کو دے دیا جو کہ دو مرلہ پر  ہے ا ُس  وقت اس کی قیمت 30 یا 40 لاکھ ہوگی۔اوقاف والا ایک گھر  بکر کو دیا جو تقریبا ً  3 مرلہ پر تھا جس کی  قیمت تقریبا ً   50  لاکھ تھی ۔ جبکہ اوقاف والا دوسرا گھر  ٹی آر گارڈر سے کچا  تعمیر شدہ تھا وہ  انہوں نے کسی کو نہیں دیا۔بعد میں بھائیوں   نے از راہ ِ ہمدردی  خالد  کو رہائش کے لیے دے دیا۔ والد صاحب کی اس تقسیم پر ہم ان کے سامنے کچھ بولتے نہیں تھے وہ  ہمارے بڑے تھے ۔(3) علیحدگی سے پہلے تک ان کی زندگی  میں ہمارا کھانا پینا مشترک تھا۔ساری جائیداد انہی کے نام سے خریدی گئی  تھی۔

(4)ریلوے والے گھر  کا معاملہ یہ ہے کہ والد صاحب کو  بہت   طویل عرصے سے  یہ  جگہ ملی ہوئی تھی جس پر ہم نے بعد میں تعمیر کی ۔  اس لیے ریلوے نے ہم سے خالی نہیں کروایا  باقی  لوگوں سے گھر خالی کروالیے  گئے۔ ہمارے پاس اگرچہ  مالکانہ کاغذات نہیں ہیں وہ ہم قانونی چارہ جوئی کرکے بنواسکتے ہیں۔ (5)  ہمارے دادا اور دادی کی وفات  والد صاحب کی حیات میں ہی ہوگئی تھی۔

(6)اس  سلسلہ میں ( کہ جب بیٹوں  کی  کمائی  سے  باپ  نے جائیداد بنائی ہو  اور  گھر کا نظام مشترک ہو تو والد کی وفات کے بعد وہ مال سب ورثاء میں تقسیم ہوگا یا جس نے کمایا  ہو اسی کو  ملے گا) ہمارے خاندان اور برادری کا کوئی عرف نہیں ہے ہمارا  معاملہ اس نوعیت کا  شاید پہلا واقعہ ہے ۔ ہمیں بس قرآن و سنت کے مطابق جواب چاہیے ۔

(7) والد صاحب نے ایک بیٹی کو   گھر بنانے کے لیے جگہ دی تھی ان کے پاس اپنا گھر نہیں تھا باقی بیٹیاں اپنے گھروں میں تھیں اس لیے  ان  کو کچھ نہیں دیا ۔

دارالافتاء سے بذریعہ فون  باقی  دو بھائیوں کا موقف لیاگیا  جبکہ تیسرے بھائی  عمر کو متعدد بار فون کیا  گیا   انہوں نے نہیں اٹھایا جس کی اطلاع سائل کو کردی گئی ۔

خالد  کا موقف

13 سال تک میں بیرون ملک رہ کر کماتا رہا اور کمائی والد صاحب کو بھیجتا رہا ۔ بڑے بھائی  زید بھی کماکر والد صاحب کو بھیجتے رہے ۔اس عرصے میں یہ دو گھر بنائے گئے جس میں چھوٹے دو بھائی جو اس پر قابض ہیں ان کا ایک پیسہ نہیں لگا ۔ایک گھر تین منزلہ میں ان دو کی رہائش ہے جبکہ دوسرا کرایہ پر ہے ۔والد صاحب نے ان دو کے نام صرف اسٹام کیا ہے رجسٹری نہیں کروائی ۔مجھے بھائیوں نے ان گھروں سے نکال دیا ہے۔ میں جس گھر میں رہائش پذیر ہوں وہ بڑے بھائی  زید نے بنایا تھا اور یہ گھر مشترکہ ہے ۔ہماری بہنوں اور بھائیوں میں شرعی تقسیم کی جائے ۔والد صاحب نے کبھی ہم لوگوں کو بٹھا کر کسی بھائی کو مالک نہیں بنایا تینوں گھر والد صاحب ہی کے نام پر ہیں ۔

بکر  کا موقف

(1)میں اور  عمر  چھوٹے بھائی ہیں ، زید اور  خالد  بڑے ہیں۔ ہم دو مالی طور پر کمزور تھے بلکہ اس وقت عمر بھی بہت کم تھی۔ ہمارے گھر کا مشترکہ نظام تھا اس وقت والد صاحب  نےسب بھائیوں کو بٹھا کر یہ تقسیم کی تھی کہ لاہور والے دو گھر میرے اور  عمر کے نام کر دیے تھے ایک میں ہم دونوں رہائش پذیر ہیں اور دوسرے کا آدھا حصہ  کرایہ پر ہے اور آدھا  خالد  بھائی کو دے رکھا ہے۔ جبکہ بڑے بھائی  زید کو لاہور ہی میں ایک اور گھر دے دیا تھا اور گاؤں والے گھر میں بھی ان کا حصہ ہے ۔(2)ایک گھر جس میں ہم دو بھائی رہائش پذیر ہیں یہ ریلوے کی جگہ ہے کسی کے نام نہیں ہے ریلوے خالی بھی کروا سکتا ہے لیکن ہم چونکہ بہت پرانے قابض ہیں اس لیے قانونی چارہ جوئی کر  کے مالکانہ حقوق لے سکتے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ ہم سے ابھی تک خالی  نہیں کروایا ۔ بعد میں آنے والے بہت سے لوگوں سے  خالی کروالیا۔(3)دوسرے دو گھر اوقاف کی جگہ پر ہیں اس کی رجسٹری بھی نہیں ہے البتہ اسٹام ہے۔(4) والد صاحب نے  خالد کو اپنی جائیداد سے عاق کر دیا تھا اہل محلہ بھی اس کے گواہ ہیں ۔ خالد نے اپنی کمائی سے کوئی گھر نہیں بنایا اس نے جو کمایا اپنے پاس ہی رکھا اسی بات پر والد صاحب سے تنازع ہوا اور عاق کرنے کی نوبت آئی ۔(5) اس  سلسلہ میں ( کہ جب بیٹوں  کی  کمائی  سے  باپ  نے جائیداد بنائی ہو  اور  گھر کا نظام مشترک ہو تو والد کی وفات کے بعد وہ مال سب ورثاء میں تقسیم ہوگا یا جس نے کمایا  ہو اسی کو  ملے گا) ہمارے خاندان اور برادری کا کوئی عرف نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   عبداللہ مرحوم  کو   یہ چاہیے تھا کہ وہ  شریعت کے اصولوں کا لحاظ کرتےہوئے   انصاف کے ساتھ   اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرتے ۔ شریعت کے اصولوں کو نظر انداز  کرکے  غیر منصفانہ تقسیم کرنا گناہ کی بات ہے۔تاہم  ان کی طرف سے کی گئی تقسیم شرعاً نافذ ہوگی جس کے مطابق لاہور والے گھروں میں سے      ریلوے والا گھر جو  انہوں نے  عمر کے نام کرکے اس کے قبضہ میں دے دیا  وہ  اس کا مالک  ہوگیا ۔ا ور  اوقاف کے دو گھروں میں سے ایک   گھر جو   بکر  کے  نام کیا اور  اس  کے قبضہ میں دے دیا   وہ اس گھر کا مالک ہوگیا ۔ باقی ورثاء کا ان دو گھروں  میں حصہ نہیں ہے  ۔  نیز جو گھر  زید نے والد کی حیات  میں بنایا  اور خود اس میں رہائش  پذیر ہوئے  وہ  صرف انہی کا ہے ۔ یہ بات واضح رہے   کہ والد  کا کسی بیٹے کو جائیداد سے عاق اور بے دخل کرنا  ایک لغو اور بے  کار  عمل ہے  ایسا کرنے سے  شرعاً  وہ باپ کی میراث سے محروم  نہیں ہوگا۔

عبداللہ مرحوم کے  ترکہ  میں  اس کے علاوہ    جو جائیداد وغیرہ  ہو وہ  ان کے ورثاء   ( چار بیٹوں ، چار بیٹیوں اور بیوہ ) کے درمیان   درج ذیل طریقہ پر تقسیم ہوگی۔

مرحوم کے  سارے ترکہ کے 96 حصے کیے جائیں گے  جن میں سے بیوہ کو   12 حصے (12.5 فیصد )  چار بیٹوں میں سے ہر ایک کو 14 حصے (14.58فیصد) اور چار بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 7 حصے (7.3 فیصد) دیے جائیں گے ۔

نوٹ :    عبداللہ مرحوم نے    بکر کو جو گھر دیا تھا اس کی مالیت  تقریبا ً   50 لاکھ تھی اور  اور   عمر  کو دیے گئے گھر کی مالیت  تقریبا ً 40 لاکھ تھی  اور  زید کو جو گھر ملا اس کی قیمت تقریبا ً 20 لاکھ تھی جبکہ  خالد  کو والد  نے  کچھ بھی نہیں دیا ۔ مرحوم کے ورثاء اگر یہ چاہیں کہ ان کے والد اس  غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے      گنہگار نہ رہیں    اور آخرت کی پکڑ  سے بچ جائیں   تو ان  کو چاہیے کہ  تینوں بیٹوں کو دیے گئے    گھروں  میں سے    خالد  کا جو حصہ بنتا  ہے  وہ  ان کو دیں ، اسی طرح   زید  کے  حصہ کو بھی باقی دو بھائیوں  ( عمر  اور  بکر  )کے  حصے کے برابر کرنے کے لیے  بکر  اور  عمر ان  کے حصے کی کمی پوری کریں ۔

توجیہ : مشترکہ خاندانی نظام میں جہاں  گھر کا سربراہ والد ہواور بیٹے  اپنی  کمائی والد کو دے دیتے ہوں   تو    والد کو اس مال کا مالک سمجھا جائے  گا یا نہیں  اس کا فیصلہ اس خاندان کے عرف سے ہوتا ہے اور ہماری معلومات کے مطابق پختون برادریوں کے عرف  میں  ایسی صورت میں  باپ کو ہی مالک سمجھا جاتا ہے اور اسے مالکانہ تصرفات  کا اختیار ہوتا ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں  عبداللہ    بیٹوں سے  حاصل شدہ مال کے   مالک تھے اور انہوں نے جو گھر بنائے وہ بھی ان ہی کی ملکیت میں تھے     اسی وجہ  سے ان کا اپنے ملکیتی گھروں کو ہبہ کرنا درست ہوا    اگر چہ اولاد میں برابری  نہ کرنے کی وجہ سےوہ گنہگار ہوئے ۔نیز ہبہ کے تام ہونے کے لیے ہبہ کےایجاب کے ساتھ قبضہ  میں دینا ضروری ہے  چونکہ مذکورہ صورت میں  عبداللہ مرحوم نے  تینوں گھروں کے ایجاب کے ساتھ قبضہ بھی دونوں بیٹوں کو دے دیا تو وہ بیٹے  ان گھروں کے مالک بن گئے ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2009)  میں ہے :

عن النعمان بن بشير، «أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا، قال: فأرجعه»وفي رواية أنه قال: «لا أشهد على جور» ………فلو وهب بعضهم دون بعض فمذهب الشافعي، ومالك، وأبي حنيفة – رحمهم الله تعالى – أنه مكروه وليس بحرام والهبة صحيحة، وقال أحمد والثوري وإسحاق رحمهم الله وغيرهم: هو حرام، واحتجوا بقوله: «لا أشهد على جور» ،

الدرالمختار (583/8) میں ہے:

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده يسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى. ولو وهب فى صحته كل المال للولد جاز وأثم.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (7/ 288) میں ہے :

«يكره ‌تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط»

امدادالفتاوی (3/515)  میں ہے:

ایک استفتاآیا ہے جس کا جواب یہ  سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جاوے شامی فاروقی ص:349۔  فصل في الشركة الفاسدة (تنبيه) یؤخذ من هذا ما أفتی به في الخيرية: في زوج امراة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ کل منهما یکتسب علی حدة ویجمعان كسبهما، ولا یعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمیز، فأجاب بانه بينهما سوية الخ۔ چند سطر بعد لکھا ہے:  فقیل:هى للزوج وتکون المرأة معينة إلا إذا کان لها کسبًا علی حدة فهولها، وقیل: بينهما نصفان

الجواب: میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں ، وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے، یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفاً کسب ہوتا ہی نہیں وہاں تو اس کو معین سمجھا جاوے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لئے کسب کرتے ہیں ، جیسا اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جاوے گا۔

ہدایہ(3/ 222) میں ہے :

«‌الهبة عقد مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: “تهادوا تحابوا” وعلى ذلك انعقد الإجماع “وتصح بالإيجاب والقبول ‌والقبض” أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، ‌والقبض لا بد منه لثبوت الملك.»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved