• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو بھائی اور ایک بہن کے درمیان وراثت کی تقسیم

استفتاء

ہمارے والد صاحب کا انتقال **** کو ہوا جبکہ دادا اور دادی کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ والدہ صاحبہ کا انتقال بھی  پہلے ہی ہوچکا ہے اور والدہ کے انتقال سے پہلے ہی نانا اور نانی انتقال کرگئے تھے۔ ہم دو بھائی اور ایک بہن ہیں، ایک بھائی  اور بہن شادی شدہ ہیں جبکہ چھوٹا بھائی ابھی تک کنوارہ  ہے ہمیں وراثت کی تقسیم کے حوالے سے شریعت اسلامیہ فقہ حنفی کی تشریحات کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے ۔ وراثت کے اندر مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں جن کے بارے میں  ضروری تفصیل بھی لکھ دی گئی ہے۔

(الف) مال نقدی کی صورت میں:

رقم بینک کے اندر موجود ہے جس کے بارے میں متعد د بار والد صاحب مرحوم سے ہم تینوں ورثاء سن  چکے ہیں کہ وہ رقم جو بینک میں والد صاحب کے نام سے جمع ہے چھوٹے بھائی کی ہے اور اس بات کے گواہ چھوٹے بھائی کے علاوہ ہم دونوں (بہن اور بھائی) بھی ہیں کہ بہت دفعہ والد صاحب نے ایسا فرمایا لیکن قبضہ  چھوٹے بھائی کو نہیں دیا  اس وقت چھوٹے بھائی کی عمر تقریباً 24 سال ہےتقریباً ایک سال پہلے والد صاحب نے یہ فرمایا تھااب وہ رقم کس کی ہوگی؟

(ب) ہماری والدہ کا سونا گھر میں والد صاحب کے پاس پڑا ہوا تھا جس کے بارے میں بھی والد صاحب  نےبہت دفعہ فرمایا کہ یہ سونا چھوٹے کی شادی پر بہو کو دیدیں گے  اور اس بات کے بھی ہم دونوں بہن اور بھائی گواہ ہیں اس سونے کی تقسیم کا کیا حکم ہے؟

(ج) گھر اور اس کے اندر موجود سامان

دادا ابو نے تین کمرے کا گھر بنایا جب ابو دو سال کے تھے، پھر ابو نے  مزید تین کمرے بنائے اور ان کے آگے برآمدہ بنایا۔ اب اس گھر کی مالیت ایک طرف اور باقی ساری زمین کی مالیت ایک طرف ہے، گھر کے اندر بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کو میں نے (بڑے بھائی نے) اپنی کمائی سےباقی ورثاء کی رضامندی سے بنوایا مثلاً الماریاں، دروازے، وائرنگ، پنکھے وغیرہ

گھر میں دو طرح کا سامان ہے ایک بڑے بھائی کی بیگم جو جہیز میں لائی اور دوسرا جو پہلے سے گھر میں موجود تھا اب اس گھر کو اور اس میں موجود سامان کو کس طرح تقسیم کیا جائے اگر اس گھر کی مالیت لگا کر بہن کا حصہ نکالا جائے تو بھائیوں  کے لیے دینا بہت مشکل  ہوجائے گا کیونکہ گھر کی مالیت اتنی زیاد ہ ہے کہ بھائی اگر اپنی باقی زمین بہن کو دیدیں تو شاید اس گھر کی مالیت پوری ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم (بھائی) اپنی بہن کو حصہ دینا نہیں چاہتے ہیں لیکن اس کی کوئی ایسی صورت ہو کہ ہمارے لیے  پریشانی نہ بنے،اس میں ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ بہن کی شادی پر اس کو  عام علاقے کی ترتیب سے ہٹ کر بہت اچھا اور اعلیٰ کوالٹی کی ہر چیز دی گئی جس میں والد صاحب نے شادی پر ہونے والے ٹوٹل خرچے کا پانچواں حصہ دیا تھا باقی بڑے بھائی نے لگائے تھے اور اس وقت یہ نیت بھی نہیں تھی کہ یہ سامان زمین کے یا اور  چیز کے بدلے میں دیا جارہا ہے۔

نوٹ: ہمارے علاقے میں بہنوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا عام طور پر جو جہیز دیا جاتا ہے وہ وراثت کے قائم مقام تصور کیا جاتا ہے اور ایسی عورت کوبُرا سمجھا جاتا ہے جو بھائیوں سے زمین لے لیکن ہم اپنی بہن کو وراثت میں  پورا پورا حصہ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ کہتی ہے کہ میں نے نہیں لینا اب کیا کریں؟

تنقیح:میری اور والد کی کمائی الگ الگ تھی،میں جاب کرتا تھا اور اپنی کمائی کے پیسے اپنے پاس ہی رکھتا تھا،والد صاحب اپنے پیسوں سے گھر کا خرچ چلاتے تھے اور میں باہر کا خرچ اٹھاتا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں بینک  میں جمع کی گئی رقم،گھر اور اس میں موجود وہ سامان جو آپ کے والد کی وفات کے وقت ان کی ملکیت میں تھا  اس کو مذکورہ بالا ورثاء میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ اس ترکہ کے کل5حصے کئے جائیں گے، جن میں سے 2 حصے(40فیصد فی کس) ان کے دونوں بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو اور ایک حصہ(20فیصد) ان کی بیٹی کو ملے گا۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

5      والد+والدہ

بیٹابیٹابیٹی
عصبہ
221

نوٹ: (1)بڑے بھائی  کی بیگم جو سامان جہیز میں لائی ہے شرعاً چونکہ وہ اس کی مالک ہے اس لیے اس سامان کو آپ کے والد کی وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔(2)چونکہ آپ کے گھر کا نظام مشترکہ تھا  اس لیے آپ نے جو خرچ کیا تھا وہ آپ واپس لینے کے حقدار نہیں ہوں گے۔

2۔ہبہ(گفٹ) کے تام ہونے کے لئے موہوب لہ(جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کو اس چیز پر قبضہ دینا ضروری ہوتا ہے جو اسے ہبہ(گفٹ) کی جارہی ہے،مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کے والد نے بینک کی رقم پر آپ کے بھائی کو قبضہ نہیں دیا تھا اس لئے وہ اس رقم کے  مالک نہیں بنے،بلکہ آپ کے والد ہی اس رقم  کے مالک تھے،اس لئے بینک کی رقم کو آپ کی والد کی وراثت میں ہی شمار کیا جائے گا، نیز سونے کی چوڑیاں چونکہ آپ کی والدہ کی تھیں اس لیے ان کی وفات کے وقت اس میں والد اور تینوں بہن بھائیوں کا حصہ تھا صرف والد صاحب اس کے اکیلے مالک نہیں تھے اور چونکہ والد صاحب نے چھوٹے بھائی کو اس سونے پر قبضہ نہیں کرایا تھا اس لیے اس سونے میں والد صاحب کا جو حصہ تھا چھوٹا بھائی اس حصے کا بھی مالک نہیں بنا لہٰذا اب والد صاحب کی وفات کے بعد اس سونے کو بھی مذکورہ بالا ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم کیا جائے گا۔

3۔شرعی طور پر تو بہن کا حصہ بینک کی رقم، سونا،گھر اور اس میں موجود سامان سبھی میں ہے،باقی گھر کو تقسیم کیسے کیا جائے تو یہ ورثاء کی اپنی صوابدید پر ہے،چاہیں تو وہ آپس میں گھر کوہی  اپنے اپنے حصوں کے بقدرتقسیم کرلیں،یا اپنے حصے کے بقدر رقم وصول کرلیں،یا پھر گھر میں اپنے حصے کے بدلے کوئی اور چیز لے لیں جو چاہے حصے کی قیمت سے کم ہی ہو۔

نوٹ:بہن کا اپنا حصہ وصول کرنے سے پہلے یہ کہنا کہ’’میں نے اپنا حصہ نہیں لینا‘‘شرعا معتبر نہیں ہے،البتہ اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد بلا کسی دباؤ کے اپنی رضامندی سے کسی اور کو اپنا حصہ دینا چاہے تو اس کا بہن کو اختیار ہے۔

الجوہرۃ النیرۃ(1/248) میں ہے:

"ولو قال الرجل: جميع مالي، أو جميع ما أملكه لفلان فهذا إقرار بالهبة ‌لا ‌يجوز ‌إلا ‌مقبوضة، وإن امتنع من التسليم لم يجبر عليه.”

رد المختار(4/300) میں ہے:

قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها ‌قبل ‌الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا

تکملہ رد المختار (116/8،ط:دارالفکر) میں ہے:

‌الارث ‌جبري لا يسقط بالاسقاط

فتاوی تنقیح الحامدیہ(228/2،ط:دارالمعرفہ) میں ہے:

الوارث إذا قال ‌تركت ‌حقي لا يبطل حقه؛ لأن الملك لا يبطل بالترك

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved