• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو بھائی اور ایک بیوہ کی وراثت کی تقسیم

استفتاء

والد*** مرحوم کی جانب سے ایک وراثتی مکان میں چار بیٹے شریک ہیں جن میں سے 2006 میں سب سے بڑے بیٹے کا انتقال ہوااور ورثاء میں فقط ایک بیوہ، تین بھائی اور تین بہنیں چھوڑیں پھر 2015 میں دوسرے بیٹے کا انتقال ہوا جس کے ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور تیں بیٹیاں ہیں اس کے بعد 2020 میں*** (سب سے بڑے بھائی کی زوجہ) کا انتقال ہوگیا اور ورثاء میں ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔

برائے مہربانی وضاحت فرمادیں کہ یہ وراثتی مکان ان کے ورثاء میں کتنے حصص میں تقسیم ہوگا؟

تنقیح: مذکورہ مکان چار بیٹوں کو عبدالخالق کی جانب سے وراثت میں ملا تھا باقی تین بہنوں کو عبدالخالق کی  وراثت میں  ان کا حصہ الگ سے دیا جاچکا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پہلے مکان کو چار حصوں میں تقسیم کریں گے، چار بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کا ایک ایک حصہ بنے گا ۔ پھر جو بھائی فوت ہوئے ان کے حصوں کی تقسیم درج ذیل طریقے سے کریں گے۔

سب سے پہلے فوت ہونے والے بڑے بھائی کا مکان میں جو 4/1 حصہ تھا اس کے 12 حصے کئے جائیں گے جن میں سے بیوی کو3حصے اور تینوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو2حصے اور تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کو1 حصہ دیا جائے گا۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

4×3=12                    بڑا بھائی

بیوی(***)بھائیبھائیبھائیبہنبہنبہن
******
13
1×33×3
39
222111

بڑے بھائی کے بعد جس بھائی کا انتقال ہواہےاس کے اپنے حصے (¼)اور بڑے بھائی کی طرف سے اس کوجو دوحصے ملے تھے ان دونوں کو ملا کر  مجموعہ کے کل 72حصے کئے جائیں گے جن میں سے9حصے بیوی کو اور تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو14حصے اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 7حصے دئیے جائیں گے۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

8×9=72                    دوسرا بھائی

بیویبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
******
17
1×97×9
963
141414777

 

اور مرحومہ***کواپنے شوہر کی طرف سے جوتین حصے ملے تھے ان کے کل 6حصے کئے جائیں گے جن میں سے بھائی کو2 حصے اور چاروں بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک حصہ دیا جائے گا۔                                    تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

6

بھائیبہنبہنبہنبہن
***
21111

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved