- فتوی نمبر: 31-240
- تاریخ: 22 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > صریح و کنایہ دونوں طرح کے الفاظ سے طلاق دینا
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی کو تقریبا بیس سال ہو چکے ہیں اور ہم حنفی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، گزشتہ روز 19 اپریل 2024 کو میری اپنے شوہر کیساتھ کسی بات پر تکرار ہو گئی، اس دوران بوقت دوپہر اس نے مجھے کہا کہ ’’میں نے تمہیں فارغ کیا‘‘ اسکے علاوہ پھر اسی دن شام کو تقریبا 9 بجے 2 بار کہا کہ “میں نے ذہنی طور پر تمہیں فارغ کیا‘‘ نیز یہ کہ سارا دن غصہ میں بار بار یہ الفاظ دہراتا رہا کہ ’’تم میری طرف سےفارغ ہو‘‘ اسکے علاوہ تقریباً اڑھائی سال پہلے بھی اس نے ہمارے نابالغ بچوں کے سامنے ایک ہی ٹائم 2 بار کہا کہ ’’میں فلاں بن فلاں تمہیں طلاق دیتا ہوں ‘‘ جس کے ایک ہفتہ بعد ہماری صلح ہو گئی اور ہم اکٹھے رہنےلگے۔ میرے 2 سوال ہیں آیا کہ اس کے اس طرح کہنے سے مجھے طلاق ہو گئی؟ میں سمجھتی ہوں کہ اسکا مطمع نظر طلاق دینا ہی تھا، دوسرا اگر کل کلاں کو وہ اپنی بات کو کوئی دوسرا معنی پہنا کر رجوع کرنا چاہے تو میرے لئے شرعی حکم کیا ہے؟
شوہر کا بیان:
دارالافتاء کےنمبر سے شوہرسے رابطہ کیا گیا تو شوہر نے کہا کہ اس کو بیوی کے بیان سے اتفاق ہے اور اس نے کہا کہ بیوی نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا اس لیے اس کو چپ کروانے کے لیے یہ الفاظ کہے میری طلاق کی نیت نہیں تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب بیوی کے لیے شوہر کیساتھ رہنا جائز نہیں۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں جب پہلی مرتبہ شوہر نے بیوی کو دو بار کہا کہ ’’میں فلاں بن فلاں تمہیں طلاق دیتا ہوں ‘‘ تو ان الفاظ سے دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں اور عدت میں رجوع کر لینے کی وجہ سے نکاح باقی رہا، پھر 19 اپریل 2024 کوجب شوہر نے مذاکرہ طلاق میں یہ کہا کہ ’’میں نے تمہیں فارغ کیا‘‘ تو اگرچہ شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی لیکن بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی کیونکہ مذکورہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جن کا حکم یہ ہے مذاکرہ طلاق میں شوہر کی نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:
كرر لفظ الطلاق وقع الكل.
(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.
درمختار (4/521) میں ہے:
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة.
و فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:
سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے “تو فارغ ہے ” یہ کون سا کنایہ ہے؟…… حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجروا
جواب : بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved