• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقوں کا یقین اور تیسری طلاق میں شک ہوتو کیا حکم ہے؟

استفتاء

شوہر کا بیان:

میرا بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوگیا تھا، جھگڑا بچوں کو مارنے سے منع کرنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ اُس جھگڑے میں، میں نے بیوی کو مارا بھی کہ آرام سے بات کرو، میری بیوی بہت زیادہ زبان استعمال کرتی ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ آواز آہستہ کرکے بات کرو۔ اتنے میں، میرے چچا، چچی، ابو، امی، بھائی وغیرہ بھی آگئے۔ میری بیوی نے ان کو دیکھ کر اور زیادہ زبان استعمال کرنا شروع کردی۔ میرے ابو اور چچا نے اس کو بہت سمجھایا کہ ایسا نہ کرو، لیکن وہ بہت زیادہ شور کررہی تھی جس کی وجہ سے مجھے غصہ آگیا اور میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ پہلے ایک دفعہ کہا کہ ’’تجھے طلاق دی‘‘ اور پھر اُس کا نام لے کر دوبارہ کہا کہ ’’تجھے طلاق دی‘‘  اُس وقت میرے بڑے بھائی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جب میں طلاق دے رہا تھا تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، میرا جسم کانپ رہا تھا اور میرے پاؤں تلے زمین نہیں تھی۔ میرا دماغ سن ہوگیا تھا۔ اب مجھے شک ہے کہ کہیں تیسری دفعہ بھی نہ کہا ہو،  دو دفعہ کا تو مجھے پکا یاد ہے، وہاں جو لوگ موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ دو دفعہ طلاق دی ہے۔ طلاق کے الفاظ بولتے وقت یا اس سے پہلے یا بعد میں کوئی خلافِ عادت فعل مثلاً توڑ پھوڑ وغیرہ سرزد نہیں ہوا۔ جناب عالیٰ! مجھے اس مسئلہ کا حل بتائیے کیا رجوع ہوسکتا ہے یا تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ہے؟ میرے 3بچے ہیں۔

حمزہ  (شوہر): ۔۔۔۔۔

صابر (شوہر کا بھائی):۔

بیوی کا بیان:

ہم میاں بیوی میں گھر والوں کے مسائل کی وجہ سے لڑائی ہوئی جو بہت زبردست تھی، جس کی وجہ سے بقول میرے خاوند کے انہوں نے مجھے دو دفعہ طلاق کا کہاتھا لیکن میں نے ایک دفعہ اپنے نام کے ساتھ یہ لفظ سنا ہے۔ میں اس سے علیحدگی نہیں چاہتی۔ (دستخط: زینب حمزہ)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو رجعی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی۔ شوہر اگر عدت کے اندر رجوع کرلے مثلا بیوی سے یوں کہہ دے کہ ’’میں نے تجھ سے رجوع کرلیا‘‘ تو نکاح قائم رہے گا لیکن اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت پوری ہونے پر نکاح ختم ہوجائے گا، جس کے بعد اکٹھے رہنے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا جس میں نیا مہر بھی ہوگا اور گواہ بھی ہوں گے۔

نوٹ: عدت کے اندر رجوع کرنے یا عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

توجیہ:محض شک سے طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق دینے کا یقین یا غالب گمان ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کو دو دفعہ طلاق کا صریح جملہ کہ ’’تجھے طلاق دی‘‘ کہنے کا یقین ہے اور تیسری دفعہ طلاق دینے میں شک ہے اس لیے اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوئیں اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی۔ نیز مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کے بقول طلاق دیتے وقت شدید غصے کی وجہ سے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور اس کا دماغ سن ہوگیا تھا لیکن چونکہ شوہر سے بظاہر کوئی خلافِ عادت قول وفعل سرزد نہیں ہوا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ شوہر اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھا، نیز شوہر کو دو دفعہ طلاق کا جملہ بولنا اچھی طرح یادہے  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق دیتے وقت اسے علم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے لہٰذا غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر ہوگی۔

بدائع الصنائع (3/199) میں ہے:

ومنها عدم الشك من الزوج في الطلاق وهو شرط الحكم بوقوع الطلاق حتى لو شك فيه لا يحكم بوقوعه حتى لا يجب عليه أن يعتزل امرأته لأن النكاح كان ثابتا بيقين ووقع الشك في زواله بالطلاق فلا يحكم بزواله بالشك

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك….الخ

عالمگیریہ (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/289) میں ہے:

وأما شرائط جواز الرجعة فمنها قيام العدة، فلا تصح الرجعة بعد انقضاء العدة؛ لأن الرجعة استدامة الملك، والملك يزول بعد انقضاء العدة، فلا تتصور الاستدامة

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه……………

(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved