• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوبائنہ طلاق کی صورت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مذکورہ بیانات کی روشنی  میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

فیاض احمد (شوہر) کا بیان : میں نے جھگڑے کے دوران اپنے والد اور ماموں اور والدہ کو مخاطب کر کے اپنی بیوی (فرزانہ) کے بارے میں کہا کہ ’’ میں اینکوں طلاق ڈتی ہے‘‘ (میں نے اسے طلاق دی ہے) یہ الفاظ میں نے دو بار کہے، اس کے بعد میرے ماموں نے میرے منہ پر ہاتھ مارا تو میں خاموش ہو گیا،اس کے بعد میرا سسر (جاوید) میری بیوی کو لینے آیا تو میں نے کہا ’’لے جاؤ، تمہاری چیز ہے‘‘ کیونکہ وہ بار بار لے جانے پر اصرار کر رہے تھے، میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر، حلف اٹھا کر کہہ رہا ہوں کہ ” میں نے اپنے اس بیان میں کسی قسم کی کوئی کمی یا زیادتی نہیں کی، اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو اللہ تعالی کے ہاں اور قانونا میں خود ذمہ دار ہوں گا۔

گواہ نمبر1: ارشد (فیاض کے ماموں) کا بیان: جھگڑے کے دوران فیاض نے میرے سامنے اپنی بیوی کے بارے میں دوبار یہ الفاظ کہے کہ ’’میڈی طرفوں اینکوں طلاق ہے‘‘ (میری طرف سے اس کو طلاق ہے) اس کے فورا بعد میں نے اس کے منہ پر ہاتھ مارا جس کے نتیجے میں یہ خاموش ہو گیا، اس کے علاوہ کچھ میری معلومات میں نہیں ہے، میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ "میں نے اپنے اس بیان میں کسی قسم کی کمی زیادتی نہیں کی اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ کے ہاں اور قانونا میں خود ذمہ دار ہوں گا”

گواہ نمبر2: کالو خان (فیاض کے والد) کا بیان: جھگڑے کے دوران میرے بیٹے (فیاض) نے میرے سامنے اپنی بیوی کے بارے میں دو بار یہ الفاظ کہے کہ ’’میں اینکوں طلاق ڈتی ہے‘‘ (میں نے اسے طلاق دی ہے) اس کے بعد ارشد نے اس کے منہ پر ہاتھ مارا تو وہ خاموش ہو گیا، اس کے علاوہ کچھ میری معلومات میں نہیں ہے،میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر  حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ "’’میں نے اپنے اس بیان میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی نہیں کی اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو اللہ کے ہاں اور قانونا میں خود ذمہ دار ہوں گا‘‘

فرزانہ (بیوی) کا بیان: میں جھگڑے کے دوران موجود نہیں تھی لیکن بعد میں میری ساس نے مجھے بتلایا کہ تیرے شوہر نے دو مرتبہ تجھے طلاق دی ہے، اس سے زیادہ مجھے کچھ علم نہیں، میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھا کر کہہ رہی ہوں کہ ’’میرے اس بیان میں کوئی کمی زیادتی نہیں ہے، اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو اللہ کے ہاں اور قانونا میں خود ذمہ دار ہوں گی‘‘

جاوید (فیاض کے سسر) کا بیان : میں نے فیاض کے خاندان والوں سے سنا کہ فیاض نے میری بیٹی کو طلاق دے دی ہے، باقی کتنی دی ہے اور کیا کہا ہے مجھے اس کا کوئی علم نہیں میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر اور حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ ’’میں نے اپنے بیان میں کوئی کمی زیادتی نہیں کی اور اگر جھوٹ بولا ہو تو اللہ کے ہاں اور قانونا میں خود ذمہ دار ہوں گا‘‘۔

وضاحت:  مذکورہ واقعہ کے بعد چچا محمد رمضان سے موبائل پر فیاض احمد کا مکالمہ ہوا جس کی تفصیل یہ ہے: چچا محمد رمضان نے فیاض سے پوچھا کیا تم نے دو طلاقیں دے دی ہیں ؟ اور پھر جب پھوپھی صاحبہ تم سے ملنے آئیں تو تم نے ان سے کیا کہا؟ اس کے جواب میں فیاض نے یہ الفاظ کہے کہ ’’میں دو طلاقیں دے چکا ہوں، بار بار میکوں ذلیل کریندے پئین،میں ایہو کجھ کرینداں، فارغ ہے، نہیں جھلیندے تاں اے گھن ونجن‘‘ (بار بار مجھے ذلیل کر رہے ہیں،میں یہی کچھ کرتا ہوں، فارغ ہے، نہیں صبر کر سکتے تو اسے لے جائیں) یہ جملے پہلی دو طلاقوں کے تین یا چار دن بعد بولے تھے اور  یہ بات پھوپھی کے پوچھنے پر کہ تو نے کتنی طلاقیں دی ہیں جواب میں کہی، اور میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ یہ آڈیو جو محمد رمضان کے موبائل میں ہے واقعی میری ہے،میں نے یہ الفاظ اپنی پھوپھی کے سامنے کہے،واضح رہے کہ اپنی پھوپھی صاحبہ سے ملاقات سے پہلے میں نے اپنی بیوی سے معذرت بھی کی اور یہ الفاظ کہے کہ "مجھے معاف کر دو،میرے سے غلطی ہوگئی ہے” اس نے کہا میں بچوں کے منہ کو دیکھ رہی ہوں چلو ٹھیک ہے، اور یہ بھی وضاحت کر دوں کہ جب سے میں نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دی ہیں تب سے ابھی تک ہمبستری نہیں کی۔

وضاحت مطلوب ہے:

(1) ’’میں اینکوں طلاق ڈتی ہے‘‘ دوسری بار یہ جملہ کس نیت سے کہا تھا؟

(2) ’’میں یہی کچھ کرتا ہوں، فارغ ہے‘‘ ان الفاظ سے شوہر کی کیا نیت تھی ؟

جواب وضاحت :

(1) دوسری طلاق دینے کی نیت سے بولا تھا۔

(2) میرے ذہن میں طلاق کا خیال نہیں تھا،ویسے ہی یہ الفاظ بول دئیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: آئندہ شوہر کو  صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہو گا۔

توجیہ: (1)  جب شوہر نے دو بار کہا کہ ” میں اینکوں طلاق ڈتی ہے” (میں نے اسے طلاق دی ہے) تو اس سے دو رجعی طلاق واقع ہو گئیں ۔

(2) طلاق دینے کے بعد شوہر نے بیوی سے کہا کہ ’’مجھے معاف کر دو،میرے سے غلطی ہوگئی ہے‘‘ شوہر کے ان الفاظ سے رجوع نہیں ہوا کیونکہ یہ الفاظ رجوع کیلئے نہ تو صریح ہیں نہ کنایہ۔

(3) دو صریح طلاقیں دینے کے بعد عدت کے اندر شوہر نے جب اپنی پھوپھی سے کہا کہ ’’میں دو طلاقیں دے چکا ہوں، بار بار میکوں ذلیل کریندے پئین،میں ایہو کجھ کرینداں، فارغ ہے، نہیں جھلیندے تاں اے گھن ونجن‘‘ (بار بار مجھے ذلیل کر رہے ہیں،میں یہی کچھ کرتا ہوں، فارغ ہے، نہیں صبر کر سکتے تو اسے لے جائیں) تو ان الفاظ سے سابقہ دو رجعی طلاقیں بائنہ بن گئیں کیونکہ ’’میں دو طلاقیں دے چکا ہوں‘‘ سابقہ دو طلاقوں کی خبر ہے اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور  ’’فارغ ہے‘‘ کا لفظ کنایات طلاق میں سے ہے، اور ہماری تحقیق میں صریح طلاق کے بعد کنایہ الفاظ استعمال کرنے سے عام حالات میں صرف وصف میں اضافہ ہوتا ہے یعنی سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن جاتی ہے لیکن عدد میں اضافہ نہیں ہوتا۔ لہذا مذکورہ صورت میں سابقہ دو رجعی طلاقیں بائنہ بن گئیں۔

درمختار (4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

امدادالفتاوی جدید مطول (5/441) میں ہے:

سوال: ایک شخص نے ایک عورت کو طلاق دی،اس کے بعد جب نادم ہوا اور عورت گھر سے خفا ہو کر جانے لگی تو عورت سے کہا ’’معاف کرو، جانے دو‘‘ چنانچہ وہ ٹھہر گئی،اور سوا ان لفظوں کے اور کچھ نہیں کہا، اب عدت ختم ہوگئی، جدید نکاح کی ضرورت ہے یا یہ الفاظ کنایہ رجعت ہوسکتے ہیں ؟

الجواب: مسئلہ جزئیہ تو نظر سے نہیں گزرا، باقی جو کنایات رجعت کے فقہاء نے لکھے ہیں: أنت عندى كما كنت أو أنت امرأتى جو کہ نیت سے موجب رجعت ہیں۔ "معاف کر دو جانے دو” ان کے مشابہ نہیں ہے، لہذا کنایہ نہ ہو گا، نکاح جدید بتراضی طرفین  کی ضرورت ہوگی۔ وجہ عدم تشابہ ظاہر ہے کہ کنایات مذکورہ اقتضاء دال ہیں بقاء نکاح پر بخلاف ان الفاظ کے کہ محض طلب رضاء کے لئے ہیں جس کو رجعت میں اصلا دخل و تعلق نہیں۔

خلاصۃ الفتاوی (2/86)میں ہے:

لو قال لامرأة أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا.

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

فتاوی شامی(5/42) میں ہے:

وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved