• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوکان کے اوپر مسجد بنانے کا حکم

استفتاء

میر اذاتی مکان12 مرلے جوہر ٹاؤن لاہور میں ہے جو کہLDA کی سکیم ہے ۔ یہ مکان سنگل سٹوری  ہے جس پر میں نے  ڈسپنسری  بنائی ہوئی  ہےجس کامقصد غریب لوگوں کاکم قیمت  میں علاج کرنا ہے شروع میں اس سے بالکل منافع نہیں کمایا  مگر اب کچھ عرصے سے تھوڑا بہت فائدہ ہورہاہے  جو کہ گھر کے خراجات میں استعمال ہوتاہے 12 سال سے یہ سلسلہ چل رہاہے ۔ مقروض ہونے کی وجہ سے منافع لینا شروع کیا لیکن اب اللہ کا شکر ہے قرضہ اتار دیا ہے میں چاہتاہوں کہ اس کے اوپر والے حصہ میں جامع  مسجد بناؤں لیکن LDA کا  قانون  اجازت نہیں  دیتاوہ کہتے ہیں کہ نقشہ  آپ رہائش  کےلیے بناؤگے  بعد میں جو مرضی کریں  جبکہ دو  کلو میٹر  کے علاقہ میں 3عدد مساجد  موجود ہیں جن میں سے ایک رہائشی مکان میں بنی ہوئی ہے اور دومساجد LDA   سکیم کے مطابق ہیں لیکن نماز  جمعہ اور عید ین کی نمازوں میں تمام مساجد بھر جاتی ہے اور لوگ سڑکوں پر نماز پر پڑھتے ہے  ۔اگر کوئی مجھے کہے کہ میں  کسی  اور جگہ  مسجد بنالوں تو اس کی جگہ خرید نے کیلئے میرے پاس پیسے نہیں میں یہ جگہ بیچ کر دوسری جگہ پر جامع مسجد بنا سکتا ہوں لیکن  پھر  دور ہونے  کی وجہ سے ٹائم نہ دے پاؤں گااور پھر ڈسپنسری بھی ختم کرنی پڑے گی۔

1۔کیا  ایسی  جگہ جو کہ میری ذاتی  ملکیت ہے اس کی اوپر والی  منزل  پر مسجد بنا سکتے  ہیں؟ اور کیا مسجد بنانے کے لئے او پر  والی  منزل وقف کرنی پڑے گی؟

2۔ مسجد  کے قبلہ رخ کادرست تعین کے لئے کس سے رجوع کریں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ شرعی مسجد ہونے کے لئے یہ ضروری ہےکہ اس کا اوپر والا اور نیچے والا حصہ کسی کی ملکیت نہ ہوبلکہ مسجد ہی ہویا  مسجد کی ضروریات کے لیے وقف ہو۔لہٰذا اگرآپ اوپر والی منز ل  کو مسجد بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو نیچے والی منزل مسجد کی ضروریات  کے لیے وقف کر نی ہو گی ۔

2۔مسجد کےقبلہ کی   سمت معلوم کر نے کے لیےاپنے علاقے  کی قدیم مساجد  کودیکھیں یا قبلہ نما آلات سے کام لیں  ۔

بحر الرائق (5/421) میں ہے :

قوله ( ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه ) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به…….. وحاصله إن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى { وأن المساجد لله } الجن 18بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب.

امداد الاحکام (3/269) میں ہے:

سوال:۔ ایک شخص مسجد اس طرح بنانا چاہتا ہے کہ اس کے نیچے دکانیں ہوں اور اوپر مسجد ہو اور دکانیں مسجد کے پورے حصے کے نیچے رکھنا چاہتا ہے ، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ صورت جائز نہیں تو اگر وہ مسجد کے مسقف حصے کے نیچے حوض رکھے اور صحن مسجد کے نیچے دکانیں رکھے، یہ بھی جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا                                        الجواب :۔مسجد کے نیچے دکانیں بنانا اس صورت میں ناجائز ہے جبکہ اوّل مسجد تیار کرلی گئی ہو پھر اس کے نیچے تہ خانہ بنا کر دکان بنائی جائے اور اگر ابتدا ہی سے یہ صورت ہو کہ اول دکانیں بنائی جائیں پھر ان کے اوپر مسجد بنائی جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ یہ دکانیں مصالح مسجد کے لئے ہوں اور مسجد ہی پر وقف ہوں۔ قال فی الشامیة: یؤخذ من التعلیل ان محل عدم کونه مسجداً فیما اذا لم یکن وقفاً علی مصالح المسجد وبه صرح فی الاسعاف فقال: واذا کان السرداب او العلو لمصالح المسجد او کانا وقفاً علیه صار مسجداً اه وفی الدر: امّا لو تمّت المسجدیةثم اراد البناء منع اه.      

الدر المختار(2/138)میں ہے:

 وتعرف بالدليل، وهو في القرى والامصار محاريب الصحابة والتابعين وفي المفاوز والبحار النجوم كالقطب،

قال الشامي :ولا يخفى أن أقوى الأدلة النجوم  والظاهر أن الخلاف في عدم اعتبارها إنما هو عند وجود المحاريب القديمة إذ لا يجوز التحري معها كما قدمناه لئلا يلزم تخطئة السلف الصالح وجماهير المسلمين بخلاف ما إذا كان في المفازة فينبغي وجوب اعتبار النجوم ونحوها في المفازة لتصريح علمائنا وغيرهم بكونها علامة معتبرة فينبغي الاعتماد في أوقات الصلاة وفي القبلة على ما ذكره العلماء الثقات في كتب المواقيت وعلى ما وضعوه لها من الآلات كالربع والاصطرلاب فإنها إن لم تفد اليقين تفد غلبة الظن للعالم بها وغلبة الظن كافية في ذلك.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved