• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دودھ کے چلتے ہوئے کاروبار میں سرمایہ لگانا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا میں

ایک شخص کی دودھ دہی کی دکان ہے، ٹھیک ٹھاک چلتا کاروبار ہے۔ ایک دوسرا شخص اس کو ایک لاکھ روپیہ دیتا ہے کہ اس سے کاروبار کرو اور مجھے بھی نفع دیتے رہو، دودھ والا شخص ایک لاکھ کو اپنے کاروبار میں شامل کرنے کے لیے شرعی رہنمائی کا طالب ہے۔

1۔ کہ یہ معاملہ شرکت کا ہو گا یا مضاربت کا یا شرکت جمع مضاربت کا؟

2۔ پیسے لیتے وقت عقد کے صحیح ہونے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟

3۔ نفع و نقصان کی تقسیم کیا ہو گی؟

4۔ اخراجات نکالنے کی کیا ترتیب ہو گی؟

5۔ کام چونکہ دودھ والا ہی کرے گا اس لیے وہ اپنے الگ سے تنخواہ مقرر کر سکتا ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: ***کا کل سرمایہ کتنا ہے؟ اور وہ کس کس شکل میں ہے؟ بکر کے سرمایہ کو کس طرح استعمال کرے گا؟ کس کس صورت میں استعمال کرے گا؟

جواب: دودھ والے نے اپنے سرمائے سے دکان کی سیٹنگ کی، سامان وغیرہ خریدا، اور جو دودھ سپلائی کرنے والے ہیں ان کو پیسہ دے کر دودھ خریدتا ہے، انڈے، ڈبل روٹی وغیرہ بھی خریدی ہوئی ہیں۔ اس طرح کل سرمایہ کتنا لگا اس کا حساب نہیں ہے۔ اب جو دوسرا شخص سرمایہ لگانا چاہ رہا ہے اس سے تو صرف دودھ، انڈے، ڈبل روٹیاں وغیرہ خریدنا ممکن ہے۔ مزید جیسے شرعی راہنمائی ہو ویسے کیا جائے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ دودھ والے کا کل سرمایہ معلوم نہیں، اس لیے شرکت تو ممکن نہیں البتہ مضاربت ہو سکتی ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ دودھ والا اس سرمائے سے کوئی ایسی چیز خریدے جو پہلے سے دودھ والے کے پاس نہ ہو اور اس کا مکمل ریکارڈ علیحدہ رکھے۔ اور جو نفع ہو اسے طے شدہ تناسب سے تقسیم کر لیں۔ اگر اس خرید و فروخت میں نقصان ہو تو دیکھیں کہ اس میں دودھ والے کی کوتاہی ہے یا نہیں؟ اگر کوتاہی ہو تو کل نقصان کا ذمہ دار دودھ والا ہو گا ورنہ نقصان سرمایہ والے کا ہو گا۔

مذکورہ صورت میں دودھ والا اگر تنخواہ پر کام کرنا چاہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ  مضاربت نہ ہو گی بلکہ اجرت پر کام کرنا ہو گا۔

في بدائع الصنائع (5/77):

فلا تصح الشركة في العروض …. لأن الشركة في العروض تؤدي إلى جهالة الربح عند القسمة، لأن رأس المال يكون قيمة العروض لا عينها والقيمة مجهولة، لأنها تعرف بالحرز والظن فيصير الربح مجهولاً، فيؤدي إلى المنازعة عند القسمة.

وقال الرافعي (6/ 476):

(وهذه حيلة لصحتها بالعروض) أي فإن فسادها ليس لذات العرض بل للملازم الباطل من

أمرين: أحدهما لزوم ربح ما لم يضمن، والثاني: جهالة رأس مال كل منهما عند القسمة. وكل منهما منتف في هذه الصورة فيكون كل ما ربحه الآخر ربح ما هو مضمون عليه ولا تحصل جهالة في رأس مال كل منهما عند القسمة حتى يكون ذلك بالحرز، فتقع الجهالة، لأنهما مستويان في المال شريكان فيه فبالضرورة يكون كل ما يحصل من الثمن بينهما نصفين.

وفي الدر المختار (8/373):

(هي عقد شركة في الربح بمال من جانب وعمل من جانب)…… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved