• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دودھ میں بیع سلم

استفتاء

ایک شخص دوسرے سے دودھ خریدتا ہے ،خریدار کہتا ہے کہ مجھے روزانہ 16من دودھ چاہیے اور اس کے لیے خریدار دوسرے کو ایک سال کی قیمت ایڈوانس دے دیتا ہے ،چاہے سال کے دوران دودھ کی قیمت کم ہو یا زیادہ ہو۔۔

کیا یہ صورت جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت کی گنجائش ہے ۔

توجیہ: مذکورہ صورت بیع سلم کی بنتی ہے اور بیع سلم کے بارے میں اگرچہ حنفیہ کا راجح قول یہی ہے کہ مبیع کی تسلیم کے لیے  کم از کم مدت ایک مہینہ ہے جبکہ مذکورہ صورت میں  روزانہ کی بنیاد پر دودھ کی فراہمی کی صورت  میں مدت ایک مہینہ سے کم بنتی ہے البتہ چونکہ حنفیہ کا ایک قول ایک آدھے دن سے زیادہ کا بھی ہے نیزا مام  شافعیؒ کے نزدیک بیع سلم میں مبیع کی تسلیم کے لیے  کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں  لہذا  ضرورت اور عرف کی وجہ سے مذکورہ صورت کی گنجائش ہے۔

ہندیہ (5/19)میں ہے:

«وإذا أسلم في ‌اللبن في حينه كيلا أو وزنا معلوما إلى أجل معلوم جاز وكذلك الخل والعصير نظير ‌اللبن ثم ذكر ‌اللبن في حينه قال شمس الأئمة السرخسي – رحمه الله تعالى -: هذا في ديارهم لأن ‌اللبن كان ينقطع عن أيدي الناس في بعض الوقت أما في ديارنا فلا ينقطع فيجوز في كل وقت والخل يوجد في كل وقت فلا يشترط الحين والعصير لا يوجد في كل وقت فيشترط ‌السلم في حينه أيضا، كذا في الذخيرة»

فتاوی قاضی خان  بہامش الہندیہ(5/21)میں ہے:

واذا اسلم في اللبن كيلا او وزنا جاز لانه ليس بمكيل ولا موزون نصا فيجوز كيفما كان

تنویر مع الدر المختار (7/486)میں ہے :

(وشرطه )بيان (اجل واقله )في السلم (شهر) به يفتى

شامی میں ہے:

قوله :(به يفتى) وقيل ثلاثة ايام وقيل اكثر من نصف يوم وقيل ينظر الى العرف في تاجيل مثله ،والاول : اي : ما في المتن اصح وبه يفتى زيلعي وهو المعتمد بحر وهو المذهب نهر

المحیط البرہانی (10/278) میں ہے:

واختلفت الروايات في الأجل الذي لا يجوز ‌السلم ‌بدونه.ذكر ابن أبي عمرو أن البغدادي أستاذ البخاري قال: إنه مقدر بثلاثة أيام فصاعداً قال: وهو قول أصحابنا رحمهم الله وعن أبي الحسن الكرخي أنه ينظر إلى مقدار المسلم فيه وإلى عرف الناس في تأجيل مثله، فإن كان شرط أجلاً يؤجل لمثله في العرف والعادة تجوز السلم ومالا فلا، وعن أبي بكر الرازي رحمه الله أنه قال: أقل مقدار يتعلق به جواز السلم أن يكون زائداً على مجلس العقد ولو بساعة، وعن محمد رحمه الله تعالى أنه أدناه بالشهر فصاعداً وعليه الفتوى.

الدر المختار(4/462) میں ہے:

وفى الحاوى: لابأس بالسلم فى نوع واحد على أن يكون حلول بعضه فى وقت وبعضه فى وقت آخر.

امداد الفتاویٰ (6/283) میں ہے:

سوال: یہاں یہ دستور ہے کہ بکر نے قصاب کو کچھ روپے پیشگی دیدئیے اور گوشت کے دام فی سیر  ٹھہرالیے جو بازار کے نرخ سے کچھ کم ہوتا ہے مثلاً بازار میں ۴ سیر بکتا ہے لیکن ۳ سیر ٹھہرا لیا اور گوشت آتارہا، اس کی یاداشت رکھ لیا اور ختم ماہ پر حساب کردیا اور کمی بیشی پوری کرکے بیباقی کردی اور آئندہ ماہ  راہ کے لیے پھر نقد روپیہ دیدیا اور نیا معاہدہ بھاؤ کا کرلیا، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بازار کا بھاؤ ۳اور ۲ ہوجاتا ہے  مگر یہ مقرر شدہ نرخ بدلا نہیں جاتا، اس کا اگلے مہینے میں لحاظ کرکے بھاؤ مقرر کرتے ہیں۔ قصاب کو یہ نفع ہوتا ہے کہ اس روپیہ سے بکریاں خریدتا ہے اور گوشت بیچتا ہے اس کو  کسی دوسرے  سےروپیہ قرض لینے کی ضرورت نہیں  ہوتی۔ اب عرض  یہ ہے کہ کیا یہ جائز ہے؟

جواب: یہ معاملہ حنفیہ کے  نزدیک ناجائز ہے اس لیے کہ جو کچھ پیشگی دیا گیا ہے وہ قرض ہے اور یہ رعایت قرض کے سبب کی ہے اور بیع سلم کہہ نہیں سکتے اس لیے کہ اس میں کم سے کم مہلت ایک ماہ کی ہونی چاہیے اور امام شافعیؒ کے نزدیک چونکہ اجل شرط نہیں اس لیے سلم میں داخل ہوسکتا ہے چونکہ اس میں ابتلاء عام ہے لہٰذا  امام شافعیؒ کے قول پر عمل  کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved