- فتوی نمبر: 15-115
- تاریخ: 14 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک گوالہ دودھ گھروں میں بیچتا ہے اور اس میں پانی بھی ڈالتا ہے اور جن کو دودھ دیتا ہے ان کو بتا رکھا ہے کہ دودھ پانی والا ہے اگر دودھ لینے والے خوش ہوں تو دودھ میں پانی ڈالنے کا کیا حکم ہے پانی ڈالنا جائز ہے کہ نہیں؟
نوٹ: اگر دودھ خالص دیں تو دودھ لینے والے خالص دودھ پی کر بیمار ہوجاتے ہیں ان کے کہنے پر دودھ میں پانی ڈالتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ وہ لوگوں کو بتا دیتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا ہوا ہے تو ایسی صورت میں پانی ملائے ہوئے دودھ کو فروخت کرنا جائز ہے کیونکہ لوگوں کو معلوم ہونے کی وجہ سے یہ صورت دھوکے کی نہیں بنتی اور اگر عام لوگوں کو معلوم نہ ہو تو پھر بتائے بغیر بیچنا جائز نہیں کیونکہ یہ صورت دھوکہ کی بنتی ہے۔
نوٹ:خالص دودھ فروخت کرنے میں خیر و برکت ہے لوگ تو خالص دودھ حاصل کرنے کے لیے اضافی پیسے بھی خرچ کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں نیز آپ ان کو بتا بھی سکتے ہیں کہ مثلا ایک کلو دودھ میں اتنا پانی ڈال لیں۔ پانی ڈالنے کا یہ عذر بے کار ہے کہ خالص دودھ سے لوگ بیمار ہوتے ہیں۔
چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ہے:162
عن عقبه بن عامر رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول المسلم اخو المسلم ولا يحل لمسلم باع من اخيه بيعا فيه عيب الا بينه له
في الشرح النووي:2/6
اي بين كل واحد لصاحبه ما يحتاج الى بيانه من عيب ونحوه في السلعة والثمن وصدقه في ذلك
فتاوی محمودیہ:
سوال :ایک شخص دودھ بیچتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے پانی ملا رکھا ہے لیکن مقدار نہیں بتلا تا کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟جبکہ ہندو دکاندار پانی ملا کر ہی بیچتے ہیں۔
الجواب: جب وہ پانی ملانا ظاہر کر دیتا ہے تو دھوکہ نہیں دیتاہے خریدنے والے کو اختیار ہے خریدے یا نہ خریدے لیکن بغیر پانی ملائے فروخت کرنے میں بڑی خیر و برکت ہے جس سے پانی ملانے والے محروم ہیں۔
احسن الفتاوی
سوال: دودھ میں پانی ملا کر فروخت کرنا کیسا ہے جبکہ گاہک کو بتا دیا جائے اگر جائز ہے تو کیا دودھ جو اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی نعمت ہے اس میں پانی ملانے کا گناہ ہوگا؟
الجواب: اگر گاہک کو ملاوٹ کا علم ہو تو فروخت کرنا جائز ہے اگر دھوکہ دینا مقصود نہ ہو تو دودھ میں پانی ملانا کوئی عیب کی بات نہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved