- فتوی نمبر: 24-224
- تاریخ: 21 اپریل 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ڈیڑھ سال پہلے میرے تایا کی بیٹی سے میری شادی ہوئی، اور اب میرے گھر اولاد ہونے والی ہے، مجھے اب پتہ چلا ہے کہ میری بیوی نے بچپن میں میری دادی کا دودھ پیا ہے اور وہ میری رضاعی پھوپھی ہے، انٹرنیٹ سے کچھ مطالعہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ رضاعی پھوپھی سے نکاح جائز نہیں ہے، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ (1)مذکورہ صورت میں ہمارا نکاح درست ہوا ہے یا نہیں؟ (2)اور اگر نکاح درست نہیں ہوا تو کیا اس ڈیڑھ سال کے عرصہ میں ہمارا ہمبستری کرنا زنا شمار ہو گا؟ (3) اگر زنا شمار ہو گا تو اس کی شرعی سزا کیا ہو گی؟ (4)اور ہمارے پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وضاحت مطلوب ہے کہ: (1) دودھ پلانے کے بارے میں دادی کا کیا موقف ہے؟ (2) اس بارے میں آپ کی اپنی کیا رائے ہے؟ (3) رضاعت کے وقت لڑکی کی عمر کیا تھی؟
جواب وضاحت: (1)دادی کا بیان: میں رشیدہ بی بی زوجہ محمد منظور یہ بات پورے یقین سے کہتی ہوں کہ جب میں اپنی چھاتی اپنی پوتی کے منہ میں دیتی تھی اس وقت میری چھاتی خشک ہو چکی تھی اس میں دودھ نہیں تھا، اور اس سے دس سال پہلے میرا آخری بچہ ہوا تھا۔ (2) میں دادی کی بات کی تصدیق کرتا ہوں کیونکہ میرے والد صاحب اور دادا بھی یہی کہتے ہیں کہ اس وقت دودھ خشک ہو چکا تھا (3)لڑکی کی عمر چند ماہ تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کی دادی کو یقین ہے کہ جب انہوں نے آپ کے تایا کی بیٹی کو چھاتی سے لگایا اس وقت ان کی چھاتی میں دودھ نہیں تھا اور آپ بھی اپنی دادی کی تصدیق کرتے ہیں، لہذا رضاعت ثابت نہیں ہوئی اور
(1) آپ کا نکاح درست ہوا ہے۔
(2) چونکہ آپ کا نکاح جائز تھا لہذا ہمبستری کرنا بھی جائز تھا
(3) چونکہ ہمبستری کرنا جائز تھا لہذا سزا کا سوال بے معنی ہے۔
(4) چونکہ آپ کا نکاح جائز تھا لہذا آپ کے بچے کا نسب آپ سے ثابت ہو گا۔
درمختار مع ردالمحتار (391/4)میں ہے:
(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكا ولوالجية.
قوله فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة فى في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك.
فتاوی محمودیہ (13/618) میں ہے:
’’سوال[۶۶۹۶]: ایک لڑکی کی عمر جب کہ اس کی والدہ فوت ہوئی ڈیڑھ سال تھی اور اس کی نانی حقیقی جس کی عمر ۵۸ سال تھی اور آٹھ لڑکیاں اور ایک لڑکا اس کی عمر میں پیدا ہوا تھا جو موجود تھا اور اس کی اخیری لڑکی دس سالہ اس وقت تھی۔ اس نانی نے بنظرِ پرورش نواسی خود اپنی چھاتیوں سے اس لڑکی کو لگایا کہ شاید دودھ اتر آئے، مگر دودھ نہ اترا اور اس بچہ کو گائے وغیرہ کے دودھ پلائے۔ نانی مذکورہ حلفیہ بیان کرتی ہے کہ میرے دودھ نہیں اترا، البتہ چھاتیاں چوستا ضرور رہا۔ اب اس لڑکے کا نکاح ہمراہ پوتی نانی یعنی لڑکے کے ماموں کی بیٹی سے درست ہے یا نہیں؟
الجواب حامدا ومصلیا: صورتِ مسئولہ میں حرمت رضاعت شرعاً ثابت نہ ہوگی: ’’ وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثديي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية.‘‘ اهـ شامی ۳/۲۲۲ [۴/۳۹۲]‘‘
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved