• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دوسری پارٹی کو بتائے بغیر اجرت پر کام کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غازی نے اپنا گھر بیچنا تھا اس نے ڈیلر حضرات سے رابطہ کرکے سیل کرنے کےلئے لگادیا،نصر غازی کا دوست ہے جب نصر کو پتا چلا کہ اس کا دوست غازی گھر بیچ رہا ہے تو نصر نے غازی سے رابطہ کیا اور کہا کہ نصر ہی غازی کے گھر کا سودا کسی ڈیلر سے کروا دےگا، نصر نے کہا کہ غازی ڈیلر حضرات سے رابطہ نہ کرے ،نصر نے خود کو ڈیلر ظاہر نہیں کیا بلکہ تمام سودا ایک دوست کی مدد کرنے کے جیسا دکھاکر کیا،گھر بیچنے کی کل رقم ایک کروڑ ستر لاکھ روپے لگی جس پر کمیشن 1%طے ہوا تھا ،نصر نے غازی کو کہا کہ وہ یہ گھر کچھ زیادہ رقم میں بکوادے گا مگر پھر کمیشن کل رقم کا 1.5%ہوگا جس پر غازی نے آمادگی کا اظہار کیا یہاں نوٹ کرنے والی بات یہ کہ اصل میں کمیشن کل رقم کا 1%ہی تھی مگر نصر نے ڈیلر حضرات کے نام پر کمیشن 1.5%کروادی ، نصر نے ایک کروڑ اسی لاکھ روپے میں بیچ دیا اور تمام رقم وصول کرلی جس پر کمیشن کی رقم   1.5%کے حساب سے تقریبا 2لاکھ 70ہزار بنی، نصر نے غازی سے ڈیلر حضرات کے نام پر کمیشن مانگی جس پر غازی نے کہا کہ وہ خود ہی ڈیلر حضرات کو کمیشن کی رقم دے گا اور کوشش کرے گا کہ اتنے بڑے سودے میں غازی کمیشن کی کچھ رقم کم کروالے گامگر  نصر نے غازی کو مجبور کیا کہ غازی ڈیلر حضرات کو براہ راست کمیشن نہ دے بلکہ وہ ان سے خود بات کرے گا اگر ڈیلر حضرات کو پیسے کم دیے تو یہ ڈیلر حضرات نام بدنام کردیتے ہیں اس لئے نصر ہی ان کو نمٹا دے گا ،غازی نے نصر کو کمیشن کے تمام پیسے 1.5%کے حساب سے اس بات پر ادا کردیے کہ نصر ڈیلر حضرات سے بات کر کے کمیشن کی کچھ رقم کم کروائے گا اور جو رقم بھی نصر کم کروائے گا وہ غازی کو واپس کردے گا اور وہ رقم نصر کے پاس غازی کی امانت ہوگی، غازی نے نصر کو اس اعتبار پر کمیشن کے تمام پیسے 1.5%کے حساب سے 2لاکھ 70ہزار  ادا کردیےیہاں گھر کا سودا مکمل ہوگیا۔

کچھ دن بعد غازی نے نصر سے پوچھا کہ اس نے  ڈیلر حضرات کوکمیشن کے پیسے دے دیے اور کیا ان میں سے کچھ پیسے بچائے؟ نصر نے پہلے تو غازی کی بات کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیا اور پھر کہا کہ چونکہ نصر کی محنت بھی سودا کروانے میں شامل تھی اس لئے کمیشن میں اس کا بھی تو حصہ ہونا چاہئے جس پر غازی نے کہا کہ تم نے تو تمام سودا ایک دوست کےناطے کروایا ہے تم نے مجھے پہلے اس بارے میں کوئی بات نہیں بتائی جس پر نصر نے کہا کہ وہ غازی سے مذاق کر رہا ہے اور اس نے کمیشن کے تمام پیسے ڈیلر حضرات کو دے دیے ہیں اس پر  غازی نے کہا کہ تم نے کوئی پیسے کمیشن سے نہیں بچائے ؟ تو نصر نے کہا کہ نہیں بچائے جس پر غازی کو بڑا تعجب ہوا ،اس کے کچھ اور دن بعد ایک ڈیلر غازی کو ملاجس سے غازی نے حال احوال پوچھا کہ انہیں کمیشن کے سارے پیسے مل گئے؟ اس پر پہلے تو ڈیلر خاموش رہا مگر غازی کے اصرار پر بولا کہ نصر نے انہیں صرف26ہزار روپے دیے ہیں،چونکہ اس سودے میں دو ڈیلر حضرات تھے تو ان کے حصہ میں 13ہزار فی کس کمیشن تقسیم آئی، غازی کو نصر کا ڈیلر حضرات کو صرف 13ہزار فی کس دینے کا سن کر دکھ ہواجس پر غازی نصر کے  گھر گیا اور نصر سے کہا کہ غازی کو سب معلوم  ہوگیا ہے کہ 1%سے 1.5%کمیشن ڈیلر حضرات نے نہیں بلکہ نصر نے خود بڑھائی اور اس کے ساتھ ساتھ نصر نے ڈیلر حضرات کو پوری کمیشن بھی ادا نہیں کی، غازی نے نصر سے کہا کہ نصر نے دوست ہونے کے ناطے سودا کروایا تھا نہ کہ اپنے آپ کو ڈیلر ظاہر کرکے اور غازی نے کمیشن کے پیسے بھی نصر کو دوست سمجھ کر دئیے تھےاس تاکید کے ساتھ کہ ڈیلر حضرات سے کچھ کمیشن کم کرواکر غازی کو پیسے دےگا اور جو پیسے نصر کے پاس ہونگے وہ غازی کی امانت ہونگے، نصر نے کمیشن کم کرنے والی بات کو مانا اور باقی رقم غازی کو واپس کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کرکے ہی غازی سے پورے کمیشن کے پیسے 1.5%کے حساب سے وصول کیے۔

غازی نے نصر سے کئی بار بات کی کہ نصر نے تو غازی کو بتایا ہی نہیں تھا کہ نصر ایک ڈیلر کی طرح غازی کا گھر بیچ رہا ہے اور چونکہ نصر نے یہ کہہ کر غازی سے کمیشن کے پیسے ڈیلر حضرات کو دینے کیلئے لئے تھے کہ جوبھی پیسے بچیں گے وہ غازی کو واپس کردے گا ،غازی نے 2لاکھ 70ہزار روپے میں سے ڈیلر حضرات کے 26ہزار منفی کرکے بقایا بچے 2لاکھ 44ہزار روپے واپسی کا مطالبہ کردیا جس پر نصر نے پیسے دینے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ نصر کا اور ڈیلر حضرات کے درمیان کا معاملہ ہے کہ نصر ان کو کمیشن میں سے کتنے پیسے دے گا مگر غازی کا اصرار ہے کہ نصر نے غازی سے دھوکہ سے کمیشن کے پیسے پہلے 1%سے 1.5%بڑھائے اور پھر وصول کئے چونکہ نصر نے خود کو ڈیلر نہیں بلکہ دوست ہونے کے ناطے سودا کروایا اور ہر بار نصر نے ڈیلر کو پیسے دینے کے نام پر غازی سے رقم وصول کی تو تمام کمیشن کے پیسے یا تو نصر 1%کے حساب سے دونوں ڈیلر حضرات میں برابر تقسیم کرے کیونکہ دونوں ڈیلر غریب انسان ہیں یا پھر نصر تمام کمیشن کی بچی ہوئی رقم غازی کو واپس کرے کیونکہ نصر نے اسی بات پر غازی سے کمیشن کے پورے پیسے وصول کئے کہ جو بھی ڈیلر حضرات سے کمیشن بچے گی وہ نصر غازی کو واپس کردے گا، اگر غازی کوپہلے ہی پتا ہوتا کہ نصر بھی ایک ڈیلر کی طرح غازی کے گھر کا سودا کروا رہا ہے تو غازی نصر کو بھی ایک ڈیلر کی طرح ڈیل کرتا ، اب غازی کی بچی ہوئی کمیشن کے مطالبہ پر نصر اور غازی ناراض ہیں ،اب غازی کے مطابق نصر نے غازی کو دھوکہ دیا ہےکہ نصر نے ایک دوست کے ناطے سودا کروا کر کمیشن کے پیسے ڈیلر کو دینے اور غازی کو واپس کرنے کی بجائے خود اپنے پاس رکھ لیے ہیں جبکہ غازی نے نصر کو کہا تھا کہ جو پیسے بھی بچیں گے وہ نصر کے پاس امانت کے طور پر ہونگے اور نصر کے مطابق غازی نے تمام سودے کے 1.5%کے حساب سے طے کردہ کمیشن وصول کی اور ڈیلر حضرات کو جو بھی دیا اس سے غازی کوکوئی سروکار نہیں ہے اور  نہ ہی غازی نصر سے کمیشن کے پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے کیونکہ نصر نے  کمیشن کے پیسے بمطابق طے کردہ 1.5%کے حساب سے وصول کیے ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ (۱) کیا غازی کا نصر سے بقایا بچی ہوئی رقم 2لاکھ 44ہزار کا مطالبہ درست ہے اور کیا نصر کو یہ پیسے واپس کرنے چاہئیں یا نہیں جبکہ غازی نے امانت کہا تھا؟

(۲)کیا نصر کا ایسے سودا کروا کر کمیشن کی کل رقم میں سے 2لاکھ 44ہزار خود رکھ لینا اور ڈیلر حضرات کو صرف 26ہزار دینا درست ہے؟

(۳) کیا نصر کا ڈیلر حضرات کے نام لیکر سودا کروانا خود کمیشن رکھنا درست ہے؟

(۴)کیا غازی کو دھوکہ میں رکھ کر اور ڈیلر حضرات کے نام لے کر نصر کا کمیشن 1%سے1.5%کروانا درست ہے؟

(۵) اس کے علاوہ بھی اگر کوئی بات اوپر کی تحریر سے نکلتی ہے تو براہ کرم نصیحت فرمادیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ کیا نصر  باقاعدہ پراپرٹی ڈیلرہے؟

جواب وضاحت: نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً   نصر اور غازی کا نہ تو  کمیشن کا معاملہ طے ہوا تھا اور نہ ہی نصر  باقاعدہ پراپرٹی ڈیلر ہے  تو نصر کے لیے کمیشن لینا جائز نہیں چنانچہ

  • غازی نصر سے باقی رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
  • نصر کے لیے وہ رقم خود رکھنا جائز نہیں ہے۔
  • جائز نہیں
  • جائز نہیں

نوٹ: غازی نے  باوجود مطالبہ کے نصر  کا رابطہ نمبر مہیا نہیں کیا لہٰذا یہ جواب غازی کے بیان کی بنیاد پر ہے اگر نصر اس بیان سے متفق نہ ہو تو ہمارا یہ جواب کالعدم سمجھا جائے ۔

شرح المجلہ(1/663)میں ہے:

المادۃ 563۔ لو خدم احد آخر بناء على طلبه من دون مقاولة اجرة فله اجر مثله ان كان ممن يخدم بالاجرة والا فلا

التقييد بكون الخدمة بناء على طلب المخدوم يشير الى انه لو خدمه بلا طلب فلا اجرة له وان كان ممن يخدم بالاجرة لانه يكون متبرعا وهو ظاهر۔ وفى الخانية: رجل امر رجلا ببيع عين من اعيان ماله فباع المامور ثم اختلفا فقال المامور بعته باجر وقال الآمر لا بل بلا اجر، قالوا :ان كان المامور دلالا يعرف به كان له الاجر والا فلا وكذلك الخياط والصباغ

وفى الدر عن الاشباه استعان برجل فى السوق ليبيع متاعه فطلب اجرا فالعبرة لعادتهم وكذا لو ادخل رجلا فى حانوته ليعمل له ۔قال فى رد المحتار : يعنى العبرة لعادة اهل السوق فان كانوا يعملون باجر يجب اجر المثل، وفى الخلاصة من الباب الخامس : رجل يبيع شيئا فى السوق فاستعان من رجل من اهل السوق فاعانه ثم طلب منه الاجر فالمعتبر عادة اهل السوق ان كانوا لا يعينون الا بالاجر يجب اجر المثل۔

رد المحتار مع الشامی(9/70) میں ہے:

وفي الأشباه استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل به

قال الشامی تحت قوله ( فالعبرة لعادتهم ) أي لعادة أهل السوق فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved