• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوبئی کرنسی کی صورت میں قرض لیا تھا تو کیا پاکستانی روپوں کی صورت میں اس قرض کی واپسی کرسکتے ہیں؟

استفتاء

آج سے کافی عرصہ پہلے اگر کسی بندے سے دوبئی کی کرنسی میں پیسے لیے ہوں اور ان پیسوں کا استعمال پاکستان میں کیا ہو اور اس وقت کرنسی کا ریٹ فی درہم  42روپے پاکستانی تھا اور ابھی ریٹ فی درہم 60 روپے پاکستانی ہے تو  کتنےپیسے واپس دینے ہیں یعنی اگر 500 درہم لیے تھے جو کہ اس وقت پاکستانی روپوں کے لحاظ سے 21000  بنتے تھے۔اور ابھی 500 درہم کے پاکستانی 30000 روپے بنتے ہیں  تو کیا 21000کے حساب سے دینے ہیں یا 30000 کے حساب سے ؟

وضاحت مطلوب ہے: پیسے دوبئی میں لیے تھے یا  دینے والے نے پاکستان میں بھیجے تھے اور پاکستان میں وصول کرنے کی صورت میں کیا طریقہ تھا؟ مطلب کوئی بندہ لایا تھا یا بینک وغیرہ کے ذریعے آئے تھے؟اور اس سلسلے میں کوئی بات طے ہوئی تھی یا نہیں؟

جواب وضاحت: جی پیسے دوبئی میں وصول کیے تھے، استعمال پاکستان  میں کیے تھےنیز کوئی بات نہیں طے ہوئی تھی اور بینک سے نہیں بلکہ  خود وصول کیے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اصل تو یہی ہے کہ جس صورت میں قرض لیا تھا اسی صورت میں واپس کیا جائے، لہٰذا اگر 500 درہم قرض لیا تھا تو 500 درہم ہی قرض لینے والے کے ذمے ہے، تاہم باہمی رضامندی سے پاکستانی روپوں کی صورت میں قرض واپس کرنا چاہیں تو آپس میں جتنے چاہیں پاکستانی روپے طے کرسکتے ہیں البتہ جس مجلس میں یہ معاملہ طے ہواسی مجلس میں پاکستانی روپے دوسرے شخص کو دینا ضروری ہوگا۔

بذل المجہود(15/11) ميں ہے:

وقد اختلف الناس في اقتضاء الدراهم من الدنانير، فذهب أكثر أهل العلم إلى جوازه، ومنع من ذلك أبو سلمة بن عبد الرحمن وابن شبرمة، وكان ابن أبي ليلى يكره ذلك إلَّا بسعر يومه، ولا يعتبر غيره السعر  ولم يبالوا كان ذلك بأغلى أو أرخص من ‌سعر ‌اليوم، انتهى

قال الموفق:يجوز هذا في قول أكثر أهل العلم، ومنع منه ابن عباس وأبو سلمة وابن شبرمة، وروي ذلك عن ابن مسعود؛ ‌لأن ‌التقابض ‌شرط، وقد تخلف، ولنا حديث الباب. وقال أحمد: إنما يقضيه بسعر يومها، لم يختلفوا فيه إلا ما قال أصحاب الرأي: إنه يقضيه مكانها ذهبا على التراضي؛ لأنه بيع في الحال، فجاز ما تراضيا عليه إذا اختلف الجنس، ولنا حديث الباب:لا بأس أن تأخذها بسعر يومها.

الدرالمختار(7/392) میں ہے:

فجاز شراء المستقرض القرض ولو قائما من المقرض بدراهم مقبوضة فلو تفرقا قبل قبضها بطل لانه افتراق عن دين. بزازية

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved