- فتوی نمبر: 20-19
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
میرا ایک دوست موبائل فون کا کاروبار کرتاہے اوروہ دبئی سے موبائل خرید کرپاکستان منگواتا ہے دبئی سے پاکستان منگوانے کےطریقے مختلف ہیں:
1۔قانونی طریقہ ،حکومت پاکستان سے کمپنی رجسٹرڈ ہواورحکومت کاجوٹیکس بنتا ہے وہ ادا کرکے سامان لایا جائے۔
2۔سامان دبئی میں کسی شخص کےحوالے کردیا جائے اوراجرت طے کرلی جائے کہ یہ سامان مجھے پاکستان میں دے دیا جائے وہ کس طرح لائے یہ اس کی صوابدید پر ہے۔
3۔سامان دبئی سے اپنی ذمہ داری پر لایا جائے اوریہاں پاکستان میں ائیر پورٹ پر جس محکمہ والوں نے سامان کلیئر کرنا ہو تا ہے انہیں کچھ رقم دے کرسامان کلیئر کروایا جائے ۔
نوٹ:پہلےراستے (قانونی) میں کمپنی رجسٹرڈ کروانے میں بہت ساری پیچیدگیاں ہیں لہذا ہر عام آدمی کمپنی رجسٹرنہیں کرواسکتا ۔دوسرےاور تیسرے راستہ میں حکومت کا ٹیکس پھر بھی اداکرنا ہوتا ہے لیکن وہ اس وقت ادا کیا جاتا ہے جب موبائل فون پاکستان میں سم لگا کر آن کیا جاتا ہے تو چالیس دنوں میں وہ ٹیکس حکومت کے کھاتے میں جمع کروانا ہوتا ہے ۔تیسری صورت میں محکمہ والوں کایہ کہنا ہے کہ ہمیں حکومت کی طرف سے نرمی کی ہدایت ہے کہ باہر آکر ٹیکس تو ادا ہوہی جاتا ہے ۔
مندرجہ بالاصورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے میرے چند سوالات اس طرح ہیں:
1۔مندرجہ بالاطریقوں میں سے طریقہ نمبر دو سے اگر کوئی سامان پاکستان منگوایا جائے اورسامان منگوانے والے کو علم ہو کہ یہ غیر قانونی طریقے سے آئے گا تو کیا اس طرح سامان منگوانا درست ہے یا غلط ؟نیز یہ بھی فرمائیں کہ اس سامان کے ذریعے جو کمائی ہوگی اس کا کیا حکم ہے؟
2۔مندرجہ بالاطریقوں میں سے تیسرے طریقے پر کام کرنے کاکیا حکم ہے متعلقہ حکام کا یہ بیان بھی مدنظر رہے کہ حکومت کی طرف سے نرمی کی ہدایت ہے ۔
3۔اگرکسی شخص نے اس تیسرے طریقے سے کام کیا ہو تو اس کی کمائی اور اصل رقم کاکیا حکم ہے؟
4۔ایسی رقم بطور قرض لے کرکوئی جائز کاروبار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
براہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2،3) مذکورہ دونوں طریقوں سے موبائل منگوانے میں کہیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور کہیں رشوت بھی دینی پڑتی
ہے نیز اس میں حکومتی قانون کی خلاف ورزی بھی ہے اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے البتہ پھر بھی کوئی ایسا کرے تو کمائی اس کی حلال رہے گی ۔
4) کرسکتے ہیں
فتاویٰ عثمانی (88/3) میں ہے:
سوال: اسمگلنگ کی گھڑیاں جو آدھی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں، ان کی خرید کیسی ہے؟
جواب: اگر ان گھڑیوں کی خرید میں جھوٹ بولنا یا کسی اور گناہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے تو خریدنا جائز ہے۔
فتاویٰ عثمانی (89/3) میں ہے:
اسمگلنگ جائز ہے یا ناجائز؟ بعض حضرات اس کو جائز کہتے ہیں، جبکہ حکومت کی طرف سے یہ کاروبار بند ہے اور عزت کا بھی خطرہ ہے۔
2۔ اگر ملک کے اندر یہ چیزیں پہنچ جائیں تو بعد میں ملک کے اندر علی الاعلان اس کی تجارت کی جاتی ہے، کیا ایسا سامان خریدنا جائز ہے یا نہیں؟
3۔ بعض لوگ ملک کی سرحدوں پر رہتے ہیں، مثلاً ایران کی سرحد پر تو یہ لوگ اپنی ضروریات پاکستان اور ایران دونوں جگہ سے پوری کرتے ہیں، ان کے جواز کی صورت ہے؟
4۔ اگر کوئی شخص خود ایران نہ جائے بلکہ اپنے ایرانی دوست کو لکھ کر اپنے لیے سامان منگوائے اور وہ خرید کر روانہ کر دے۔ مثلاً ایران سے آج کل موٹر سائیکلیں مکران کے راستے بہت آرہی ہیں، لوگ ادھر خرید کر مجبوراً کراچی میں اس کے کاغذات بنواتے ہیں، چونکہ بغیر کاغذ کے چلانا منع ہے، کراچی میں نمبر حاصل کرنے کے لیے ہزار ڈیڑھ ہزار خرچ ہوتا ہے، عوام و خواص اس میں مبتلا ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
جواب: (1سے 4): اصل یہ ہے کہ شرعاً ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مملوک روپے سے اپنی ضرورت یا پسند کا جو مال جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے، لہذا کسی بیرونی ملک سے مال خریدنا وہاں لے جا کر بیچنا شرعاً مباح ہے، لیکن ایک صحیح اسلامی حکومت اگر عام مسلمانوں کے مفاد کی خاطر کسی مباح چیز پر پابندی عائد کر دے تو اس کی پابندی کرنا شرعاً بھی ضروری ہو جاتا ہے، اب موجودہ مسلمان حکومتوں نے چونکہ اسلامی قوانین کو ترک کر کے غیر اسلامی قوانین نافذ کر رکھے ہیں، لہذا ان کو وہ اختیارات نہیں دیے جا سکتے جو صحیح اسلامی حکومت کو حاصل ہوتے ہیں لیکن ان کے احکام کی خلاف ورزی میں چونکہ بہت سے منکرات لازم آتے ہیں مثلاً اکثر جھوٹ بولنا پڑتا ہے، نیز جان و مال یا عزت کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے، لہذا ان کے جائز قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ جب کوئی شخص کسی ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے تو وہ قولاً یا عملاً یہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اس حکومت کے قوانین کا پابند رہے گا، اس معاہدے کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جب تک حکومت کا حکم معصیت پر مشتمل نہ ہو اس کی پابندی کی جائے۔
اسمگلنگ کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اصلاً باہر کے ملک سے مال لے کر آنا یا یہاں سے باہر لے جانا شرعی اعتبار سے جائز ہے لیکن چونکہ حکومت نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے اور اس پابندی کی خلاف ورزی میں مذکورہ مفاسد پائے جاتے ہیں۔ اس لیے علماء نے اس سے منع فرمایا ہے، اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved