• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دکان کے ملازم (سیل مین )کو کمیشن دینا

استفتاء

محترم میں ریڈی میڈ  گارمنٹس کاکام کرتا ہوں ،میں اپنا مال بیچنے کےلیے مارکیٹ کےسیلز مین کوکمیشن دیتا ہوں جبکہ دکان کے مالک کو اس کمیشن کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ میں اس کے ملازم کو مال بیچنے پر کمیشن دیتا ہوں۔میرے مال کی کوالٹی میں کوئی کمی نہیں ہوتی مجھے مجبوراً کمیشن دینا پڑتی ہے اگر میں سیلز مین کو کمیشن نہ دوں تو وہ میرا مال فروخت نہیں کرتا اوریہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں تمام پارٹیوں کے ساتھ ہوتا ہے اورسب کامال سیل بیس پر ہوتا ہے اگر مال بک گیا تو رقم دیتے ہیں ورنہ مال واپس کردیا جاتا ہے ان حالات میں سیلزمین کو کمیشن دینا درست ہے یا غلط ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں ۔شکریہ۔

وضاحت مطلوب ہے:اگر آپ یہ کمیشن نہ دیں تو آپ کے کاروبار کو کتنا نقصان پہنچے گا نیز آ پکے مالی حالات کیسے ہیں ؟

جواب وضاحت:اگرمیں کمیشن نہ دوں تو وہ میرا مال گاہک کو نہیں دکھائے گا اور اس کی میرا مال بیچنے میں دلچسپی نہیں ہو ہوگی جس کی وجہ سے میرا مال سیل  نہیں ہو گا اورتقریبا 70سے 75فی صد مال واپس ہوجائے گاجبکہ میری مالی حیثیت بھی اتنی مضبوط نہیں کہ مال کی واپسی کا متحمل ہوپا ؤ ں ملکی حالات اورکرونا کیو جہ سے بھی شدید مندا ہے جس کی و جہ سے حالات بھی اتنے اچھے نہیں ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سیل مین کو کمیشن دینا رشوت ہے لیکن اگر اس کے دئیے بغیرگذارے کےقابل بھی  کام نہ چلتا ہو تو آپ کودینے کی گنجائش ہے  لیکن سیل مین کےلیے بہرحال ناجائز ہے ۔نیز آپ کےلیے بھی صرف اس وقت تک اجازت ہے کہ کمیشن دیئے بغیر آپ کا گذارے کےقابل بھی مال سیل نہ کرے ورنہ اجازت نہیں ۔نیز جس صورت میں اجازت ہے اس میں توبہ واستغفار بھی ساتھ کرتے ہیں یہ نہ سمجھیں کہ بس اجازت مل گئی اب جو چاہے کرتے رہو۔

حاشية ابن عابدين (5/ 362)

مطلب في الكلام على الرشوة والهدية  قوله ( أخذ القضاء برشوة ) بتثليث الراء  قاموس وفي المصباح

الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد

والرشوة تقسم إلى أربعة أقسام : 1 – الرشوة المحرمة على الآخذ والمعطي كالرشوة التي تعطى للقاضي ليحكم له ويأثم المعطي في إعطاء الرشوة على ذلك الوجه , ولو كان محقا في دعواه ويأثم القاضي إذا حكم لذلك الرجل بناء على الرشوة التي أخذها , ولو كان الراشي محقا في دعواه ويكون ملعونا . 2 – الرشوة المحرمة على الآخذ وغير المحرمة على الدافع كما لو دفع أحد رشوة لأحد لخوفه على نفسه أو ماله أو دفع أحد لآخر رشوة لتحققه طمعه في ماله وبقصد تخليص بعض ماله منه فأخذ الرشوة من طرف الآخذ حرام وممنوع ( الولوالجية ) ولكن ليس محرما إعطاؤها انظر المادة ( 21 ) . 3 – لو كان لأحد أمر محق فيه عند وال فأدى أحد الأشخاص غير الموظفين مالا ليقوم له بإتمام ذلك الأمر فيحل دفع ذلك وأخذه ; لأنه وإن كانت معاونة الإنسان للآخر بدون مال واجبة فأخذ المال مقابل المعاونة لم يكن إلا بمثابة أجرة ( الولوالجية بتغيير يسير )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی ا علم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved