- فتوی نمبر: 34-59
- تاریخ: 10 ستمبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > تصاویر
استفتاء
کچھ عرصے سے ہماری دکان میں پیسے چوری ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمارے کسی ملازم نے ہمارے غلہ کی چابی بنوائی ہے لہذا جب ہم نماز پڑھنے جاتے ہیں یا ہمیں مارکیٹ یا بینک جانا پڑتا ہے اور اس ملازم کو موقع ملتا ہے تو وہ غلہ کھول کر پیسے نکال لیتا ہے چونکہ ہمارا لین دین کا سارا نظام کمپیوٹرائز ہے اس لیے سارا لین دین لکھا ہوتا ہے لیکن پیسے کم ہو جاتے ہیں تو کیا ہمیں شرعاً اجازت ہے کہ ہم سکیورٹی کیمرے لگوا لیں جس دن پیسے کم ہوں اس دن نمازوں وغیرہ کے اوقات کی ریکارڈنگ نکال کر چیک کریں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر، محرم تصویر (ممنوع تصویر) کے حکم میں نہیں جب تک کہ اس کا پرنٹ نہ لیا جائے، جبکہ بعض حضرات کے نزدیک یہ بھی ممنوع تصویر کے حکم میں ہے اور ہماری تحقیق میں بھی یہ ممنوع تصویر کے حکم میں ہے لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ممکنہ حد تک ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر سے بھی اجتناب کیا جائے۔ تاہم اس اختلاف کے پیش نظر سکیورٹی کی ضرورت کے لیے ڈیجیٹل کیمرے کا استعمال کرنا درست ہے، اور ہمارے خیال میں اس کی نظیر گھر میں کتا رکھنے کی ہے کہ اگرچہ عام حالات میں گھر میں کتا رکھنا ناجائز ہے اور کتا اور تصویر دونوں رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے سے مانع ہیں تاہم جس طرح حفاظت کی غرض سے گھر میں کتا رکھنا جائز ہے اسی طرح حفاظت کی غرض سے ڈیجیٹل کیمرے کا استعمال بھی جائز ہے۔
صحیح بخاری (7/167) میں ہے:
3225 – حدثنا ابن مقاتل أخبرنا عبد الله أخبرنا معمر ، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله أنه سمع ابن عباس رضي الله عنهما يقول: سمعت أبا طلحة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة تماثيل.
شرح المجلۃ (1/51) میں ہے:
الضرورات تبیح المحظورات … یعنی ان الممنوع شرعاً، یباح عند الضرورۃ۔
درر الحکام (1/143) میں ہے:
’’الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة أوخاصة‘‘
تکملہ فتح الملہم(4/164) میں ہے:
لان الصورة المحرمة ماکانت منقوشة او منحوتة بحيث يصبح لها صفة الاستقرار على شي، وهي الصورة التي کان الکفار يستعملونها للعبادة، اما الصورة التي ليس لهاثبات و استقرار، وليست منقوشة علي شي بصفة دائمة، فانها بالظل أشبه منها بالصورة
ہندیہ (5/361) میں ہے:
وفي الأجناس لا ينبغي أن يتخذ كلبا إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم وكذا الأسد والفهد والضبع وجميع السباع وهذا قياس قول أبي يوسف رحمه الله تعالى كذا في الخلاصة.
ويجب أن يعلم بأن اقتناء الكلب لأجل الحرس جائز شرعا وكذلك اقتناؤه للاصطياد مباح وكذلك اقتناؤه لحفظ الزرع والماشية جائز كذا في الذخيرة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved