- فتوی نمبر: 30-82
- تاریخ: 18 اکتوبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ایک مارکیٹ ہے اس میں 20 یا 25 دکانیں ہیں اور سب کلاتھ ہاؤس یعنی کپڑے کی دکانیں ہیں، ایک کسٹمر ایک دکاندار کے پاس آیا اور اس دکان سے 20 یا 25 ہزار کے کپڑے خریدے اور کچھ کپڑے کسٹمر کو چاہیے تھے لیکن وہ اس دکاندار کے پاس نہیں تھے اب یہی دکاندار کسی دوسری دکان سے خاص اس کسٹمر کے لیے مطلوبہ کپڑے لے آیا اور ان کپڑوں کی قیمت مثلا 3 ہزار روپے بنتی تھی لیکن اس دکاندار نے کسٹمر سے آ کر کہا کہ ان کپڑوں کی قیمت 4 ہزار ہے یعنی ایک ہزار اپنے لیے کسٹمر کے علم میں لائے بغیر نفع رکھ لیا ، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس ہزار روپے کو اپنے لیے بطور نفع رکھنا جائز ہے؟اور آج کل یہی صورت بازاروں میں بہت عام ہے اور بہت زیادہ ہو رہا ہے اگر جائز ہے تو بحوالہ جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں اور اگر جائز نہیں ہے تو جواز کی کون سی صورت ہے؟
جواب :مذکورہ صورت جائز ہے کیونکہ عام طور پر اس طرح کی صورتحال میں گاہک کو پتہ ہی ہوتا ہے کہ اس قیمت پر دکاندار سے مجھے ملے گا پیچھے سے اسے جتنے مرضی کا پڑے اس لیے اس کا مقصود بھی اس سے خریدنا ہوتا ہے البتہ اگر کوئی خاص صورتحال ہو تو حکم مختلف بھی ہو سکتا ہے۔۔۔
مذکورہ جواب کے متعلق مزید سوال :گاہک کو پتہ نہیں چلتا ہے اور یہ بات یقینی ہے اگر گاہک کو پتہ چلے تو وہ ناراض ہو، اب اس کا کیا حکم ہے؟ نیز مذکورہ صورت میں مارکیٹ میں وہ چیز جتنے کی ہوتی ہے اس سے زائد میں بیچتا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس صورت کا بھی وہی حکم ہے جو اس سے پہلی صورت کا تھا اور ہم نے اپنے جواب میں جو یہ لکھا تھا کہ"گاہک کو پتہ ہی ہوتا ہے”اس کا یہ مطلب نہیں کہ گاہک کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ اس دکاندار کو یہ کپڑا کتنے میں پڑا ہے اور مجھے کتنے میں دے رہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گاہک کو عام طور پر یہ پتہ ہی ہوتا ہے کہ دکاندار اپنا نفع رکھ کر مجھے دے رہا ہے۔ باقی گاہک کو یہ معلوم ہونا ضروری نہیں کہ دکاندار کو یہ کپڑا کتنے میں پڑا ہے کیونکہ مذکورہ صورت میں عرفاً دکاندار گاہک کا وکیل بن کر کپڑا نہیں خریدتا بلکہ پہلے اپنے لیے خریدتا ہے اور پھر اپنا نفع رکھ کر گاہک کو فروخت کرتا ہے کیونکہ اگر دکاندار کو گاہک کا وکیل فرض کریں تو دکاندار کے یہ کپڑا خریدنے اور اس پر قبضہ کرنے کے بعد اور گاہک کو یہ کپڑا فراہم کرنے سے پہلے دکاندار کی کوتاہی کے بغیر کسی بھی وجہ سے کپڑا ضائع ہوجائے تو اس کا ضمان گاہک پر ہوگا جبکہ عرفاً گاہک اپنے قبضے سے پہلے اس کا ضمان قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا لہٰذا مذکورہ صورت میں دکاندار کو گاہک کا وکیل سمجھنا درست نہیں۔ ہاں اگر دکاندار واقعتاً وکیل بن کر خرید رہا ہوتا تو جتنے میں خریدتا اتنے میں ہی دینا ضروری ہوتا اور ایسی صورت میں اگر دکاندار اپنا کمیشن رکھنا چاہتا تو گاہک کو پہلے سے کمیشن کی متعین یا فیصدی مقدار بتانا ضروری ہوتا واذ لیس فلیس۔
البتہ مذکورہ صورت میں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ جب دکاندار کے پاس مطلوبہ کپڑے نہیں تھے تو یہ بیع مالا یملک کی صورت بنے گی لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ بیع ما لا یملک کی صورت تب بنتی جب دکاندار کے مطلوبہ کپڑے گاہک کو دینے سے پہلے ہی اس کو بیع مانا جائے لہٰذا دکاندار اور گاہک اگر گاہک کے دکاندار کو مطلوبہ کپڑے کا آرڈر دیتے وقت ہی اسے بیع مانتے ہیں تو یہ صورت یقیناً ناجائز ہے اور اگر پہلے وعدہ بیع مانتے ہیں اور جب دکاندار گاہک کو مطلوبہ کپڑے فراہم کردیتا ہے اس وقت بیع مانتے تو بیع ما لا یملک کا اشکال وارد نہیں ہوگا اور یہ صورت جائز ہوگی ہاں وعدہ بیع ماننے کی صورت میں گاہک دکاندار کے خریدنے کے بعد بھی لینے سے انکار کر سکتا ہے،تاہم اس کے انکار اور وعدہ خلافی کی وجہ سے اگر دکاندار کا کوئی حقیقی نقصان ہوا تو دکاندار اس حقیقی نقصان کی تلافی گاہک سے کروا سکتا ہے۔
شامی (4/ 575) میں ہے:
الثمن ما تراضى عليه سواء زاد على القيمة أو نقص، والقيمة ما قوم به الشيء بمنزلة المعيار من غير زيادة ولا نقصان.
درر الحكام فی شرح المجلۃ الاحکام (2/21) میں ہے:
"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً لقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها”.
شرح المجلہ(4/415)میں ہے:
إذا اشترطت الأجرة في الوكالة و أوفاها الوكيل يستحقها وِإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة يكون متبرعا وليس له مطالبته بأجرة.
المحیط البرہانی (7/ 395)میں ہے:
وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة.
فقہ البیوع(1/95)میں ہے:
فالصحيح أن اتفاقية التوريد لاتعدو من الناحية الشرعية من أن تكون تفاهما ومواعدة من الطرفين.أما البيع الفعلي،فلا ينعقد إلا عند تسليمات المبيعات.
فقہ البیوع(1/112)میں ہے:
والذی أجازه العلماء المعاصرون عند الحاجة فى جعل الوعد ملزما أن يتحمل الخسارة الفعلية التى أصاب الطرف الأخر بسبب التخلف،وهو أن يضطر الي البيع فى السوق بسعر أقل من تكلفته بأن يذهب إلى السوق و يبيع القمح، فيخسر فيه،بمعنى أنه كان اشتراه بتسعمائة،ولم يجد من يشتريه إلا بثمان مائة.
امداد الفتاوی(3/39)میں ہے:
سوال:*** نے *** سے کہا کہ تم مجھ کو یک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگا دو میں تم سے صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید کر لوں گا یا جس قدر مدت کے واسطے تم دو گے اسی حساب سے منافع دوں گا یعنی پانچ روپے یک صد روپے کا منافع ایک ماہ کے واسطے ہے جب مال آجاوے گا اس وقت مدت ادھار اور منافع کی معین ہو جاوے گی اس کے جواب میں *** نے کہا کہ میں منگا دوں گا مگر اطمینان کے واسطے بجائے یک صد کے دوصد رقعہ لکھاؤں گا تاکہ تم خلاف عہدی نہ کرو *** نے منظور کیا؟
جواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں ایک یہ کہ *** اور *** میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے کسی کے ذمہ بحکم عقد لازم نہیں،اگر *** کے منگانے کے بعد بھی *** انکار کر دے تو *** کو مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں پس اگر عرف عادت میں *** مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے،ورنہ حلال،اسی طرح *** کو اور مثل *** کے *** کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وعدہ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں منافع کی مقدار میں تغیر و تبدل کر دیں،یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک ماہ کے ادھار کی صورت میں پانچ روپے سیکڑہ نفع پر ٹھہرا تھا باقی زیادہ لکھانا یہ بیع ہزل فی مقدارالثمن ہے،اگر *** کی بدعہدی کی صورت میں بھی زیادہ مقدار واقعی ثمن سے زیادہ وصول نہ کرے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے،نیز *** پر واجب ہوگا کہ ورثاء کو اس کی اطلاع کر دے تاکہ *** کے بعد وہ *** کو پریشان نہ کریں۔
امداد الفتاوی(3/40)میں ہے:
سوال: *** نے *** کو مبلغ 100 روپے واسطے خریدنے جفت پاپوش کے لیے اور کوئی اجرت بطور معاوضہ خریداری کے قرار نہیں پائی متعاقدین میں اجرت کی نسبت ذکر بھی نہیں آیا اور قبل خریداری مال اور دین زر کی قیمت کے باہمی یہ امر طے ہو چکا تھا کہ یہ مال مبلغ سواچھ روپے سیکڑہ کہ منافع سے بمیعاد ایک مہینے کے تم کو دے دیں گے مال دسادر سے خرید کر *** اپنے گھر لے آیا اور *** کو بلا کر مال دکھلا کر جوڑ دیا یعنی شمار کرا دیا اور دونوں نے سمجھ لیا کہ یہ مال مبلغ 100 روپے کا ہے اس کے بعد عمر ونے *** سے دریافت کیا کہ تم یہ مال ہم سے کس قدر مدت کے واسطے بشرح منافع مذکورہ بالا لیتے ہو *** نے کہا کہ ایک ماہ کے واسطے لیتا ہوں *** نے اس کو قبول کیا بات ختم ہونے مدت ایک ماہ کے *** نے *** سے اصل روپیہ مع منافع طلب کیا *** نے صرف منافع مبلغ سوا چھ روپے *** کو دے کر اصل روپیہ کی نسبت عذر کیا کہ میرے پاس اس وقت موجود نہیں ہے بلکہ کچھ مال موجود ہے ،کچھ نقد ہے اور کچھ ادھار میں ہے ،عمر نے کہا کہ اگر تمہارے پاس زر اصل موجود نہیں ہے تو تم اس کے عوض میں اس قدر کا مال آئندہ کے لیے مجھ کو دے کر اور جوڑواکر پھر ہم سے اس کو خرید لو *** نے مبلغ 100 روپے کا مال اپنے پاس دکھلایا اور عمر کو دیکھ کر جڑوا دیا اور پھر بشرح منافع بالا عمر وسے خرید لیا اور مدت کبھی ایک ماہ تراضی طرفین سے قرار پاتی ہے اور کبھی زائد؟
جواب: یہاں دو بیع علی سبیل التعاقب ہیں ایک وہ کہ *** نے *** سے مال خریدا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر *** *** کو اور *** *** کو بے بیع وشراء پر بنا بر وعدہ سابقہ مجبور نہ کرے تو جائز ہے اور اگر مجبور کرے ناجائز ہے،دوسرے بیع وہ جو سو روپیہ بقیہ زر ثمن کہ کے عوض میں *** نے *** کو دیا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں یہ شرط ٹھہری کہ پھر *** سے *** اس کو خریدے گا تو حرام ہے اور اگر یہ شرط نہ ٹھہری پھر اگر خریدے آزادی سے جدید رائے سے خریدے تو جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved