- فتوی نمبر: 27-84
- تاریخ: 22 جولائی 2022
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
ایزی لوڈ والے دوکاندار کا موبائل پیکیج لگا کر دینے پر اضافی رقم چارجز کے نام پر لینا جائز ہے یا نہیں؟ گاہک کو پہلے سے بتادیتے ہیں کہ اتنی رقم اضافی دینی پڑے گی۔
تنقیح: ہم جاز کیش، ایزی پیسہ یا بیلنس والی سم کے ذریعے لوگوں کو پیکیج لگا کردیتے ہیں، جاز کیش اور ایزی پیسہ کے ذریعے تو ہم اپنے طور پر پیکیج لگاتے ہیں جس پر کمپنی سے ہمیں کچھ نہیں ملتا ،البتہ کمپنی کی طرف سے ہمیں بیلنس والی سم کے ذریعہ یہ فائدہ ملتا ہے کہ ہمیں 1000 روپے کا بیلنس خریدنے پر 1025 روپے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپنی ہمیں پیکیج لگانے پر الگ سے فائدہ نہیں دیتی، البتہ زیادہ تعداد میں پیکیج لگانے پر کبھی کبھی کچھ فری منٹس دے بھی دیتی ہے لیکن مستقل کچھ طے نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں گاہک سے پیکیج لگانے پر اضافی چارجز لیے جاسکتے ہیں۔
توجیہ: جس صورت میں دکاندار جاز کیش یا ایزی پیسہ کے ذریعہ پیکیج کر کے دیتا ہے تو چونکہ اس صورت میں وہ کمپنی کا ایجنٹ بن کر کام نہیں کر رہا ہوتا بلکہ گاہک کا ایجنٹ بن کر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی تریب یہ ہوتی ہے کہ پیکیج کروانے والا دکاندار کے پاس جاتا ہے اور اسے اپنے نمبر (مثلا یوفون کے نمبر)پر پیکیج لگانے کا کہتا ہے ، دکاندار کا مثلا جاز کیش کا اکاؤنٹ ہے اور اس کے پاس اس میں پیسے رکھے ہوئے ہیں تو وہ دکاندار ان پیسوں کے بدلے اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے یوفون کمپنی سے گاہک کے نمبر پر پیکیج کروا دیتا ہے یعنی یوفون کمپنی کو گاہک کا نمبر دے کر کہتا ہے کہ اس پر پیکیج کر دیں چنانچہ کمپنی کی طرف سے اس نمبر پر پیکیج کردیا جاتا ہے اور ادائیگی دکاندار کے جاز کیش اکاؤنٹ سے ہوجاتی ہے پھر دکاندار گاہک سے جتنے کا پیکیج ہوا ہے وہ اور مزید مثلا دس روپے وصول کر لیتا ہے، اس کی فقہی تکییف یہ ہے کہ اس دکاندار نے گاہک کا وکیل بن کر اپنے اکاؤنٹ سے گاہک کے نمبر پر کمپنی سے پیکیج کروا کر دیا اور ادائیگی بھی اپنے اکاؤنٹ سے کردی لہذا اب دکاندار کو اختیار ہے کہ وہ رقم گاہک سے لے لے اوروہ جو اضافی رقم گاہک سے لیتا ہے وہ اس دکاندار کے سروس چارجز بن جائیں گے، یعنی جو اس نے اپنی سروس گاہک کو دی اور اپنے اکاؤنٹ سے اس کے نمبر پر پیکیج کروا کر دیا اس سروس کے چارجز (اجرت ) گاہک سے لے لیے ، مذکورہ صورت میں چونکہ پہلے سے گاہک کو بتا بھی دیا جاتا ہے کہ مزید اتنے پیسے دینے ہوں گے لہذا یہ صورت جائز ہے ،اور جس صورت میں دکاندار اپنی لوڈ والی سم سے پیکیج کر کے دیتا ہے وہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ وہ دکاندار کمپنی کا ایجنٹ بنتا ہے اس لیے گاہک سے اضافی پیسے نہیں لے سکتا لیکن چونکہ دکاندار کمپنی سے لوڈ خریدکر پہلے سے اس لوڈ کا مالک بن چکا ہوتا ہے، اس لیے اب پیکیج لگانے کی صورت میں وہ کمپنی کا کمیشن ایجنٹ نہیں بنتا بلکہ اپنےملکیتی لوڈ سے پیکیج کر کے دیتا ہے،لہذا اسے اختیار ہے کہ باہمی رضامندی سے جتنے کا چاہے پیکیج لگا کر دے۔
شرح المجلة (مادة 1492) میں ہے
إذا أعطى الوكيل بالشراء ثمن المبيع من ماله وقبضه فله أن يرجع إلى الموكل يعني له أن يأخذ الثمن الذي أعطاه من الموكل وله أيضا أن يحبس المال المشترى ويطلب ثمنه من موكله إلى أن يتسلم الثمن وإن لم يكن قد أعطاه للبائع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved