• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دوران نماز عورتوں کا کوہان نما جوڑا باندھنا

حضرت گرامی قدر حضرت اقدس مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب مد ظلہ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعد سلام مسنون  امید ہے کہ حضرت والا کے مزاج  بخیر ہوں گے، حضرت والا کی خدمت میں ایک استفتاء اور اس کا جواب از راقم ارسال خدمت ہے، اگر حضرت والا کی رائے موافق ہو تو تصدیق و تصحیح فرما کر مشکور فرمائیں وگرنہ محلِ نظر مواقع کی نشاندہی فرما کر ممنون فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے علم و عمل اور عمر میں بےپایاں برکتیں نازل فرمائے۔

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین دریں مسئلہ کہ اگر کوئی عورت سر کے اوپر کوہان نما جوڑا باندھ کر نماز پڑھے تو شرعاً کیا حکم ہے؟ جبکہ حدیث شریف میں اس طرح جوڑا باندھنے پر وعید وارد ہوئی ہے کہ “ایسی عورت کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہیں ہو گی” (تکملہ فتح الملہم: 4/ 199)

عورت کا کوہان نما جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے یا مکروہ تنزیہی خلاف اولیٰ؟

بندہ نے اس مسئلہ کو عربی، اردو کتب فتاویٰ میں تلاش کیا لیکن کہیں کوئی واضح تصریح نہیں ملی، علامہ شامی رحمہ اللہ نے (رد المحتار: 1/ 642 کراچی) میں عقصِ شعر کی مختلف صورتیں ذکر فرما کر کراہت کا قول تحریر فرمایا ہے۔ جیسا کہ تصریح حسب ذیل ہے:

(قوله و عقص شعره اه) أي ضفره و فتله و المراد به أن يجعله علی هامة و يشده بصمغ أو أن يلف ذوائبه حول رأسه كما يفعله النساء في بعض الأوقات …. و جميع ذلك مكروه اه.

امداد الاحكام (1/ 557) میں بعنوان “عورتوں کے لیے نماز میں عقصِ شعر مکروہ ہے یا نہیں؟” ایک سوال و جواب ہے، لیکن وہ بھی مردوں سے متعلق ہے، عورت کے بالوں سے متعلق کسی بھی صورت کی تصریح نہیں، خاص کر مذکورہ صورت جس پر وعید ہے۔

نیز امداد الاحکام (1/ 563) میں بعنوان ” کراہت عقص شعر نماز میں مردو عورت کے لیے عام ہے یا صرف مردوں کے لیے خاص ہے؟” کے تحت بھی تقریباً وہی بات ذکر کی گئی ہے جو امداد الاحکام (1/ 557)  پر مذکور ہے۔

احسن الفتاویٰ (8/ 74) میں بعنوان “عورتوں کا جوڑا باندھنا” میں صرف اتنی بات ملتی ہے کہ “البتہ گدی پر جوڑا باندھنا شرعاً جائز ہے، بلکہ نماز میں افضل ہے، اس لیے کہ اس سے بالوں کے پردے میں سہولت ہوتی ہے”۔ البتہ اسی جواب میں حضرت رحمہ اللہ نے عورتوں کا سر کے اوپر جوڑا باندھنے کو ناجائز فرمایا ہے۔

اسی طرح احسن الفتاویٰ (10/ 318) پر بعنوان “جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا” کے تحت ایک سوال کا جواب مذکور ہے لیکن وہاں بھی عورت کا کوہان نما جوڑا باندھ کر نماز ادا کرنے کے بارے میں جواز یا عدم جواز کی کوئی تصریح نہیں ملتی۔

2۔ حدیث مبارکہ میں کوہان نما جوڑا باندھنے کی جو وعید بیان کی گئی ہے، اس کی علت کیا ہے؟

بندہ راہنمائی کا طالب ہے۔ امید ہے باحوالہ جواب دے کر ممنون فرمائیں گے۔ جزاکم اللہ خیراً

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا اس کی دو صورتیں ہیں:

1: گدی پر جوڑا باندھنا جیسے کہ عام طور پر عورتیں باندھتی ہیں۔

2: سر کے اوپر کوہان نما جوڑا باندھنا۔

1۔ پہلی صورت کا حکم تمام عربی، اردو کتب میں موجود ہے کہ یہ صورت مردوں کے لیے نا جائز ہے، ایسی حالت میں مردوں کے لیے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے “نهی أن يصل الرجل و رأسه معقوص”، اس حديث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے جائز ہے اور بحر الرائق (1/ 41) پر عقصِ شعر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ”أن يلف ذوائبه حول رأسه كما يفعله النساء”۔ ” كما يفعله النساء” سے معلوم ہوا کہ یہ حکم صرف مردوں کے لیے خاص ہے ورنہ تعریف الشیء بالشیء لازم آئے گی۔ مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے بھی احسن الفتاویٰ میں یہ بات ذکر فرمائی ہے اور (8/ 74) میں فرمایا کہ یہ صورت یعنی (عقصِ شعر) عورتوں کے لیے نماز میں زیادہ بہتر ہے، کہ اس میں بالوں کا ستر ہے۔

2۔ دوسری صورت کہ “کوہان نما جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا” اس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ عربی، اردوکتب میں اس کی تصریح نہیں تو عربی کتب میں اس کی ممانعت و کراہت اصول و قواعد سے معلوم ہوتی ہے، اور اردو کتب میں سے احسن الفتاویٰ (1/ 318) میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے تصریح فرمائی ہے صلوٰۃ کے ابواب میں کہ کوہان نما جوڑا باندھنا عورتوں کے لیے جائز نہیں اور یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ بات تو چل رہی ہو نماز کی اور حکم بیان کیا جا رہا ہو نماز کے باہر کا۔ اب مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ کوہان نما جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے کیونکہ اس طرح جوڑا باندھنے کی سخت وعید آئی ہے ان کو اہلِ نار میں سے فرمایا گیا ہے، لہذا یہ گناہ کبیرہ ہے اور نماز کے اندر تو اس کی  قباحت اور بھی بڑھ جائے گی، کیونکہ اس طرح کے کئی افعال جس پر نماز کے اندر یا خارج صلوٰۃ میں نہی وارد ہوئ ہو یا اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہو نماز کے اندر ایسے افعال پائے جانے کی وجہ سے فقہاء ایسی نماز کو مکروہ تحریمی فرماتے ہیں، جیسے کہ البحر الرائق  (2/ 36) میں ہے: “قوله (و لتخصر) و هو وضع اليد علی الخاصرة إنه فعل المتكبرين و لا يليق بالصلاة و إنه فعل الشيطان و يكره التخصر خارج الصلاة أيضاً و الذي يظهر أنها تحريمية فيها للنهي المذكور الخ”. اسی طرح شامی میں ہے: “يكره اشتمال الصماء لنهيه عليه السلام  عنها و ظاهر التعليل بالنهي أن الكراهة تحريمية كما مر في نظائره.” (1/ 652)۔

لہذا جس طرح حالتِ نماز میں تخصر اور اشتمال صماء کے پائے جانے سے نماز مکروہ تحریمی ہے، بوجہ نہی اور متکبرین کا طریقہ ہونے کے،اسی طرح حالت نماز میں کوہان نما جوڑا باندھنے سے نماز مکروہ تحریمی ہونی چاہیے، کیونکہ اس پر بھی سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ اور شرح نووی وغیرہ نے اس کو فاسقات فاجرات کا طریقہ بتلایا ہے۔ علامہ شامی رحمہ اللہ کی عقص شعر کے تحت یہ عبارت “و الأشبه بسياق الحديث أنها تحريم إلا أن تثبت علي التنزيه إجماع فتعين القول به.” (1/ 642)، اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مکروہ تحریمی کے خلاف جب تک مکروہ تنزیہی کے اثبات پر اجماع نہ ہو جائے تو وہ مکروہ تحریمی ہی رہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے (1/ 639) پر فرمایا جب بھی کسی فعل پر مکروہ کا اطلاق ہو تو اس کی دلیل پر نظر کی جائے گی اگر اس پر وارد ہونے والی نہی ظنی الثبوت ہو تو مکروہ تحریمی ہو گا جب تک کہ نہی کے لیے صارف عن النہی کوئی قرینہ نہ پایا جائے “إذا ذكرو ا مكروهاً فلا بد من النظر في دليله فإن كان نهياً ظنياً يحكم بكراهة التحريم إلا لصارف للنهي عن التحريم إلی المندوب”۔ ان تمام اصولوں سے اتنی بات تو واضح ہو گئی کہ یہ فعل نماز کے اندر مکروہ تحریمی ہے۔

رہی یہ بات کہ نماز واجب الاعادہ ہو گی یا نہیں؟ تو اس کے لیے فقہاء کرام کا یہ اصول ہے کہ “کل صلاۃ أديت مع الكراهة وجبت إعادتها”، اور فقہاء کرام نے یہ  قاعدہ عام اور مطلق رکھا ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تخصیص اور قیود نہیں لگائیں، علامہ شامی رحمہ اللہ کا اس قاعدہ میں تخصیص کرنا (بأن مرادهم بالواجب و السنة التي تعاد بتركه ما كان من ماهية الصلاة و أجزائها. 1/ 475) محل نظر ہے، کیونکہ اول تو خود علامہ شامی رحمہ اللہ اس تخصیص پر مطمئن نہیں جیسا کہ فرماتے ہیں “لكن قولهم كل صلاة أديت مع كراهة التحريم يشمل ترك الواجب و غيره و يؤيده ما صرحوا به من وجوب الإعادة بالصلاة في ثوب فيه صورة بمنزلة من يصلي و هو حامل الصنم. 1/ 475″۔ نیز بعض مقامات پر علامہ شامی رحمہ اللہ خود اپنی اس تخصیص کی ممانعت فرما رہے ہیں اور فقہاء کے مذکورہ قاعدہ اور اصول کو مطلق رکھ کر حکم لگا رہے ہیں جیسا کہ “صلاۃ مع مدافعۃ الأخبثين” پر اعادہ کا حکم صادر فرمایا “قوله و كذا كل صلاة الخ الظاهر أنه يشمل نحو مدافعة الأخبثين. 1/ 475”۔ اسی طرح تصویر والے کپڑوں میں نماز پڑھنے پر اعادہ کا حکم فرمایا “و قال في المعراج و في جامع التمرتاشي لو صلی  في ثوب فيه صورة يكره و تجب الإعادة قال أبو اليسر هذا هو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة. 2/ 63”۔ اسی طرح “صلاة إلی وجه إنسان” کے اعادہ کے حکم کو بھی اسی قاعدہ کی اطلاقیت پر محمول فرمایا “قوله و صلاته إلی وجه إنسان …. و يكون الأمر بالاعادة لإزالة الكراهة لأنه الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة. 1/ 644”۔ حالانکہ یہ تمام افعال ماہیت اور اجزاء صلوٰۃ میں سے نہیں ہیں، اس کے باوجود اعادہ کا حکم فرمایا۔ معلوم ہوا کہ فقہاء کا مذکورہ قاعدہ مطلق اور عام ہے، (البتہ بعض جزئیات میں فقہاء نے اتفاقاً اعادہ کی صراحت کر دی ہے اور اکثر جزئیات کو مطلق ہی رکھا ہے اور ان تمام جزئیات کے لیے اصول ذکر فرما دیا)۔ لہذا اسی اصول و قاعدہ کے تحت عورت کا کوہان نما جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا بھی مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہونا چاہیے۔

جہاں تک تعلق ہے علامہ شامی رحمہ اللہ کے جماعت والے جزئیہ پر قیاس کرنے کا (کہ چونکہ انفرادی نماز ترک جماعت کے باعث مکروہ ہونے کے باوجود واجب الاعادہ نہیں، لہذا یہ اصول مطلق نہیں بلکہ اس میں ماہیت وغیر ماہیت کی تخصیص ہے) تو یہ قیاس درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ انفرادی نماز کے واجب الاعادہ نہ ہونے  کی تخصیص نص سے ثابت ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں جس شخص نے انفرادی نماز پڑھ لی تھی تو اسے ترک جماعت کی وجہ سے اعادہ کا حکم نہیں دیا گیا۔ (بخاری: 1/ 98۔97)، اس طرح جس حدیث مبارکہ میں جماعت میں حاضر نہ ہونے والوں کے گھروں کے جلانے کا ذکر ہے، اس میں بھی ایسے لوگوں کو اعادہ کا حکم نہیں دیا گیا۔ (مسلم: 1/ 232)۔ نیز فقہاء کی صراحت کے مطابق فاسق و مبتدع کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ في الدر المختار: و يكره إمامة عبد …. و فاسق …. و متبدع …. و قال الشامي تحته و أما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه …. فهو كلمبتدع تكره إمامته في كل حال بل مشی في شرح المنية علی أن كراهة تقديمه كراهة تحريم. (1/ 560)، لیکن واجب الاعادہ نہیں ہے، بلکہ تنہاء پڑھنے سے ان کی اقتداء میں پڑھنا بہتر ہے، في الدر المختار: صلی خلف فاسق أو مبتدع قال فضل الجماعة قال الشامي تحته أفاد أن الصلاة خلفه أولی من الإنفراد. کیونکہ یہاں نص موجود ہے “صلوا خلف كل بر و فاجر” كنز العمال: 6/ 96، اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے امام الفتنہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا (بخاری: 1/ 96) تاکہ امت انتشار و افتراق سے بچی رہے “و في هذا الأثر الحض علی شهود الجماعة و لا سيما في زمن الفتنة لئلا يزداد تفرق الكلمة” (فتح الباری: 2/ 151)، تو جس طرح فاسق و مبتدع کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہونے کے باوجود واجب الاعادہ نہیں نص کے باعث تو اسی طرح انفرادی نماز پڑھنا بھی ترک جماعت کی وجہ سے واجب الاعادہ نہیں نص کے پائے جانے کی وجہ سے، نیز اگر انفرادی نماز کو ترک جماعت کی وجہ سے واجب الاعادہ  کہا جائے تو چونکہ اکثر اوقات با جماعت اعادہ متعذر ہوتا ہے کہ اگر جماعت کا وقت نکل جانے کے بعد پڑھی تو اب یا تو دیگر مساجد میں جماعت ڈھونتا پھرے یا ایسے اشخاص کو جمع کرے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تو اس میں حرج ہے، اور اگر کہیں جماعت یا ایسے اشخاص میسر نہ ہوئے تو پھر با جماعت اعادہ کے حکم سے تکلیف ما لا یطاق لا زم آئے گا اور اگر انفراداً ہی اعادہ کرے، تو اس صورت میں دور لازم آئے گا۔ لہذا علامہ شامی رحمہ اللہ کا انفرادی نماز کے ترک جماعت کی وجہ سے واجب الاعادہ نہ ہونے پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء کے عام اور مطلق قاعدے و اصول میں تخصیص کرنا ان کا تفرد معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے قاعدہ کو عموم پر رکھنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں نماز کا واجب الاعادہ ہونا ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ یہ ہماری ناقص رائے ہے۔ لہذا اس مسئلہ کی تحقیق دوسرے مفتیان کرام سے بھی کر لی جائے۔ ھذا ما ظهر لي من الفتاح الوهاب

2۔  حدیث مبارکہ میں کوہان نما جوڑا باندھنے کی جو وعید ہے شرح نووی اور مرقاۃ وغیرہ میں اس کی کئی علتیں بیان کی گئی ہیں کہ یہ متکبرانہ انداز ہے، ایسی عورتیں قلباً و جسماً اپنے آپ کو مردوں کی طرف مائل کرتی ہیں، اس طرح کے بال بنانا فاجرات فاسقات عورتوں کا شیوہ ہے، ایسی عورتیں اپنی آنکھوں کو اور اپنے سر کو نیچے نہیں کرتیں، بے جا زینت کا اظہار ہے۔ بنی اسرائیل کی عورتوں کے لیے بھی اس کی ممانعت تھی وغیرہ وغیرہ۔

و في شرح النووي 2/ 383، باب جهنم أعاذنا الله منها

(و أما مائلات) فقيل زائعات عن طاعة الله تعالی و ما يلزمهن من حفظ الفروج و غيرها مميلات يعلمن غيرهن مثل فعلهن و قيل سائلات متبخرات في مشيتهن مميلات أكتافهن و أعطافهن و قيل يمتشن المشط الميلاء و هي مشطاء البغايا، معروفة لهن و قيل مائلات إلی الرجال مميلات لهم بما يبدين من زينتهن و غيرها و  …. رؤسهن كأسنمة البخت فمعناه يعظمن رؤسهن بالخمر و العمائم و غيرها مما يلف علی الرأس حتی تشبه السنمة الإبل البخت هذا هو المشهور في تفسيره قال المازري و يجوز ان يكون معناه يطمحن إلی الرجال و لا يغضضن عنهم و لا ينكس رؤسهن و اختار القاضي. و الله تعالی أعلم بالصواب

ضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب کی رائے گرامی

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت سر کے اوپر کوہان نما جوڑا باندھ کر نماز پڑھے تو شرعاً کیا حکم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عورت خواہ سر پر کوہان نما جوڑا باندھے یا گدی پر باندھے دونوں حالتوں میں اس کی نماز صحیح ہو گی مکروہ تحریمی نہ ہو گی۔ اس کی وجوہ یہ ہیں:

1۔ عورت جب چادر اوڑھے گی تو کوہان نما جوڑا چادر کے اندر چھپ جائے گا۔ کوہان نما جوڑا بنانے سے نہی کی وجہ جیسا کہ مجیب نے مرقاۃ سے نقل کیا ہے یہ ہے کہ عورت اس کے ذریعے غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے یا تکبر کرتی ہے یا مٹکتی ہے، لیکن یہ بات اس وقت ثابت ہو گی جب سر پر کوئی چادر نہ ہو یا بہت باریک دو پٹہ ہو۔ اچھی طرح سے چادر اوڑھنے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا اور اس کا مستور ہونا اس کو کالمعدوم کر دیتا ہے، اگر کراہت مانی جائے تو وہ کراہت تنزیہی ہو گی تحریمی نہ ہو گی۔

2۔ علامہ شامی کی عبارت سے بھی یہی مفہوم ہے کیونکہ انہوں نے جوڑا باندھنے کے دونوں طریقے ذکر کیے، لیکن ان دونوں حالتوں میں نماز پڑھنے کی کراہت کو صرف مرد کے ساتھ مخصوص کیا عورت کے لیے کراہت کا حکم نہیں لگایا، حالانکہ اگر ان میں بھی کراہت ہوتی تو اس کو ذکر کرنے کا یہ موقع تھا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved