• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

E-F-Uکمپنی کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مؤدبانہ گزارش ہے کہ مذکورہ مسئلہ میں واضح اور تفصیلی فتوی مطلوب ہے۔ بات لمبی نہیں کرتا مختصر عرض کرتا ہوں کہ یہ میرے سمیت علاقہ کے انیس افراد کو مطلوب ہے۔ سب نے میرے ذمہ لگایا کہ اپنی معلومات کے مطابق تفصیلی فتوی منگائیں تاکہ ہر کسی کو دکھا سکیں۔ ان میں کچھ بڑے دکاندار ہیں اور کچھ تجارت پیشہ۔ امید ہے آپ کو شاید اس بارہ میں پہلے سے بھی معلومات ہوں گی کیونکہ یہ ملک کی ایک مشہور کمپنی ہے۔ لیکن پھر بھی بتانا ہمارا فرض ہے۔ کمپنی والے ہم میں سے ہر ایک کے پیچھے پڑے ہوئے تھے پھر ان کے زیادہ اصرار پر ہم نے کراچی دارالعلوم سے فتوی منگایا لیکن وہ بہت مختصر جواب ہے کوئی تسلی نہیں ہوئی، اگر کہیں گے تو اس کی تصویر بنا کر بھیج دوں گا۔ اب کمپنی کے زیادہ اصرار پر آپ سے راہنمائی درکار ہے۔ ہم سب نے ان کمپنی والوں کو بٹھا کر تفصیل سے پوچھا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کمپنی کے لوگوں کی باتیں ہم عام لوگوں کو خاص سمجھ نہیں آتیں وجہ یہ ہے کہ سادہ کاروبار کے بجائے وہ موجودہ کاروباری اور نفع نقصان اور یونٹس کی باتیں بتاتے رہتے ہیں۔ بہرحال جتنا زیادہ سے زیادہ ہم ان سے سمجھ سکے ہیں وہ درج ذیل ہے۔ راہنمائی فرمائیں تاکہ ہم حرام سے بچ کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں کامیاب ہو سکیں۔

کمپنی کا نام EFU کمپنی ہے۔ جسے وہ حمایہ تکافل بھی کہتے ہیں۔ اس کمپنی میں ہم عام لوگوں نے سرمایہ لگانا ہوتا ہے جس پر یہ ہمیں کچھ مراعات دیتی ہے جس میں انشورنس بھی شامل ہے۔ تفصیل اس طرح ہے کہ ایک بندہ ان کے ساتھ معینہ مدت کا معاہدہ کرتا ہے مثلاً ایک مثال لے لیتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ پچاس ہزار روپے سالانہ پر بیس سال کے لئے معاہدہ کرتا ہوں۔ اب یہ معاہدہ دس سال کا بھی کر سکتا ہے کوئی اور پچاس ہزار کے بجائے لاکھ دس لاکھ جتنا مرضی کرے یہ ہر بندے پر منحصر ہے۔ اب میں ہر سال کمپنی کو پچاس ہزار ادا کروں گا۔ وہ آگے جو بھی کاروبار کرے سیاہ کرے یا سفید۔ اب بیس سال بعد وہ مجھے لم سم دے گی۔ جس طرح سرکاری ملازمین کو آخر پر گورنمنٹ دیتی ہے۔ یہ منافع طے شدہ نہیں ہے یہ منحصر ہے آپ کے دورانیے پر پھر آپ کے لگائے گئے سرمائے پر پھر اس کے بعد اس وقت جو ریٹ یونٹ کا چل رہا ہوگا وہی لگے گا۔ کیونکہ یہ روپے کے بجائے اسے یونٹ میں تبدیل کر کے کاروبار کرتے ہیں۔ اور یونٹ کا ریٹ ہر روز کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے جو آپ چیک بھی کر سکتے ہیں موبائل کے ذریعے۔ علاوہ ازیں اگر آپ معاہدہ پورا ہونے سے پہلے ہی اپنا سرمایہ نکالنا چاہتے ہیں تو جب آپ نکال رہے ہیں اس وقت کے ریٹ کے مطابق آپ کو نفع نقصان بنا کر دے دیا جاتا ہے اور آپ کمپنی سے فارغ۔ لیکن یہ حساب کیسے کرتے ہیں یہ کلیہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اگر آپ سارا سرمایہ نہیں نکالنا چاہتے بلکہ ساتھ ساتھ تھوڑا تھوڑا نکالنا چاہتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے پھر اس سے آپ کی اس رقم پر فرق پڑے گا جو آپ کو آخر پر ملتی ہے۔ کمپنی کے ساتھ کم از کم دو سال چلنا شرط ہے اس سے پہلے آپ سرمایہ واپس نہیں لے سکتے۔ اب جو آخر پر رقم دی جاتی ہے اس میں وہ کہتے ہیں یہ بھی فکس یعنی پہلے سے معین نہیں ہوتی۔ کسی کو زیادہ ملتی ہے شاید ریٹ کی وجہ سے اور کسی کو کم۔ اس کے کلیے کا بھی علم کمپنی کے بڑوں کو ہی ہے جیسے ملازمت میں پنشن وغیرہ کا کلیہ گریجوایٹی کا کلیہ حکومت کو ہی پتہ ہوتا ہے۔ یہ تو صورتحال ہے اگر آپ سیدھا سیدھا چلتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان سے اضافی مراعات لینا چاہتے ہیں تو وہ آپ کی مرضی ہے کہ کچھ لیں یا نہ لیں چاہے سب لیں یا ان میں سے اپنی پسند کی دو چار لے لیں۔ مثلاً ان کی تعداد چودہ ہے جن میں ایکسیڈنٹ، بیماری، موت، جسم کے کسی عضو کے ضائع ہونے، بچوں کی شادی، بچوں کی سکول فیس وغیرہ جیسی مراعات شامل ہیں۔ ان کی صورت یہ ہے کہ ان کے لئے آپ کو کچھ کٹوتی کروانی پڑےگی اپنے سرمایہ سے۔ مثلاً آپ ان مراعات میں سے ایک لے رہے ہیں ایکسیڈنٹ والی۔ تو آپ کے پچاس ہزار میں سے مثلاً پانچ سو (یہ کمپنی بتا دیتی ہے کہ اتنا ہے اور یہ فکس و معین ہوتا ہے) روپیہ کٹتا رہے گا چاہے آپ کا ایکسیڈنٹ ہو یا نہ ہو۔ اگر نہ ہو تو یہ سارا پانچ پانچ سو کمپنی کا ہوگا۔ اور اگر خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے تو اب کمپنی کو خسارہ ہوگا کیونکہ وہ تو پانچ سو کاٹ رہی ہر دفعہ لیکن وہ اب آپ کو دس لاکھ یا پندرہ لاکھ دے گی اور کچھ علاج بھی مفت کروائے گی اور یہ رقم بھی فکس ہوتی ہے کمپنی پہلے ہی بتا دیتی ہے کہ ایکسیڈنٹ پر آپ کو اتنا ملے گا اور بچوں کی فیس والا لیتے ہیں تو اتنا ملے گا۔ اب ان مراعات میں کافی بڑی بڑی مراعات بھی ہیں جو تیس چالیس لاکھ اور عمر بھر کے لئے بھی ملتے ہیں لیکن ان کی پھر کٹوتی بھی زیادہ ہے۔

یہ اتنی تفصیل ہے جو ہمارے چھوٹے دماغوں میں آئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ کچھ چیزیں بتاتے ہیں مثلاً پریمیئم کارڈز وغیرہ اس کی سمجھ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ انیس سو تینتیس میں قائم ہوئی اور آج تک کی سب سے بڑی مسلم انشورنس کمپنی ہے۔ علماء و مفتیان سے پوچھ کر چلتی ہے۔ اسٹیٹ لائف سے مختلف ہے کیونکہ نفع نقصان دونوں کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ اور اسٹیٹ لائف میں تو ہر چیز فکس ہوتی ہے یہاں کوئی فکسیشن یا دھوکہ دہی نہیں ہے۔ ٹرانزیکشن میزان بینک سے کرتی ہے۔ کاروبار کا جب پوچھا تو بتایا کہ کراچی سٹاک ایکسچینج کے اٹھاون فیصد شیئر ہولڈرز ہیں اور ملک کے بڑے بڑے حکومتی ٹینڈرز لیتی ہے اور اپنا خود کا درآمد برآمد کا کاروبار ہے مثلاً انڈیا وغیرہ سے گائے کا کاروبار کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا ہم اس کمپنی میں شامل ہو سکتے ہیں؟جبکہ اس کمپنی کے شریعہ ایڈوائزمیں جامعہ دارلعلوم کراچی کےمفتی ابراہیم صاحب کا نام موجود ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ نے جس کمپنی کا سوال میں ذکر کیا ہے وہ تکافل کمپنی ہے ،تکافل کے عنوان سے پاکستان میں رائج نظام جامعہ دارالعلوم کراچی کے مفتی صاحبان کا تشکیل دیا ہوا ہے ۔اور وہ حضرات اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔لیکن ہمارے ادارے کو اس نظام کے اسلامی ہونے سے اتفاق نہیں ہے جس کی تفصیل حضرت مفتی عبدالواحدؒ کی کتاب ’’جدید معاشی مسائل کی اسلامائزیشن کا شرعی جائزہ‘‘ میں موجود ہے۔اس لیے ہمارا فتوی یہ ہے کہ تکافل کی پالیسی حاصل کرنا جائز نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved