- فتوی نمبر: 33-397
- تاریخ: 19 اگست 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > موبائل سم کمپنیوں کے احکام
استفتاء
میرے بھائی کی ایزی پیسہ وغیرہ کی دکان ہے اور وہ لوگوں کے پیسے بھیج کر اس پر کمیشن کماتے ہیں اس میں تین طرح سے کمائی ہوتی ہے۔
(1) لوگوں کے پیسے بھیج کر اس پر کمیشن لیتے ہیں اس کے لیے وہ:
(الف) کمپنی کی ریٹیلر سم استعمال کرتے ہیں۔
(ب) ذاتی سم بھی استعمال کرتے ہیں، جب کمپنی کی سم استعمال کرتے ہیں تو اس وقت گاہک سے اضافی فیس نہیں لیتے بلکہ صرف کمپنی سے فیس لیتے ہیں البتہ ذاتی سم استعمال کرنے کی صورت میں گاہک سے فیس لیتے ہیں۔
(2) بعض دکاندار کہتے ہیں کہ آپ آن لائن ہماری پیمنٹ کر دیں ہم آپ کو دو دن بعد یا کچھ دنوں کے بعد پیسے دیں گے اور ہر ہزار کے عوض میں 10 روپے اضافی دیں گے۔
(3) لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ ہمارے اکاؤنٹ میں پیسے بھیج دیں ہم آپ کو کچھ دنوں میں واپس آپ کے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کر دیں گے اور ایک لاکھ کے عوض ایک ہزار روپے دیں گے اب میرے بھائی کہہ رہے ہیں کہ تم بھی یہ کام کرو کیا میرے لیے یہ کام کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ دونوں صورتیں یعنی کمپنی کی ریٹیلر سم سے پیسے بھیجنا اور اس پر گاہک سے کمیشن نہ لینا ، اور ذاتی سم سے پیسے بھیجنا اور اس پر گاہک سے کمیشن لینا (کمپنی سے نہ لینا) جائز ہے بشرطیکہ گاہک کو پہلے سے معلوم ہو کہ اتنی کمیشن ہوگی یا اسے خود بتایا جائے۔
توجیہ: جس صورت میں کمپنی کی ریٹیلر سم سے پیسے بھیجے جائیں اس صورت میں دکاندار کمپنی کا وکیل ہے لہٰذا اس صورت میں دکاندار صرف کمپنی سے کمیشن لے سکتا ہے گاہک سے لینا جائز نہیں اور جس صورت میں اپنی ذاتی سم سے پیسے بھیجے جائیں اس صورت میں دکاندار گاہک کا وکیل ہے لہٰذا اس صورت میں صرف گاہک سے کمیشن لینا جائز ہے کمپنی سے لینا جائز نہیں ۔
نوٹ: ذاتی سم استعمال کرنے کی صورت میں دکاندار کے گاہک کا وکیل ہونے پر دو اشکالات ہوسکتے ہیں۔
(۱) دکاندار جب کمپنی کی ریٹیلر سم بھی استعمال کررہا ہے اور اس صورت میں وہ کمپنی کا وکیل ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دکان پر بیٹھ کر ایک وقت میں کمپنی کا بھی وکیل ہو اور دوسرے وقت میں صرف سم کے فرق کی وجہ سے وہ گاہک کا بھی وکیل ہو؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایزی پیسہ وغیرہ کا کام کر رہے ہوتے ہیں وہ عموما صرف ایزی پیسہ کا کام نہیں کرتے بلکہ جاز کیش اور یو پیسہ ، سادہ پے اور بایو میٹرک وغیرہ مختلف کام کر رہے ہوتے ہیں اور ان تمام کاموں میں وہ کاموں کے حساب سے مختلف کمپنیوں کے وکیل بن کر کام کرتے ہیں جس کی تعیین کمپنی کی سم وغیرہ (آلات) استعمال کرنے سے ہوتی ہے یعنی ایک ہی دکان میں ایک وقت میں کسی کمپنی کے وکیل ہوتے ہیں اور دوسرے وقت میں دوسری کمپنی کے، اسی طرح ذاتی سم استعما ل کرتے وقت وہ گاہک کے وکیل بھی بن سکتے ہیں ۔
(۲)دوسرا اشکال یہ ہو سکتا ہے کہ جب دکاندار کمپنی کی ریٹیلر سم بھی استعمال کرتے ہیں اور ان کا کمپنی سے معاہدہ بھی ہوتا ہے اور دکاندار کمپنی کے بروشر بھی دکان میں لگاتے ہیں کمپنی کی طرف سے اسے کمیشن بھی ملتی ہے تو کیا ایسے میں اس کا ذاتی سم استعمال کرنا اور گاہک سے کمیشن لینا کمپنی کو دھوکہ شمار نہیں ہوگا ؟
اس کاجواب یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے گذرا کہ مذکورہ کام کرنے والے صرف ایک ہی کمپنی کے وکیل ہوں اور صرف ان سے ہی معاہدہ ہو ایسا نہیں ہوتا اور جس طرح ایک ہی دکان پر مختلف کمپنیوں کا وکیل بننا دھوکہ شمار نہیں ہوتا اسی طرح بعض صورتوں میں وہ گاہک کے وکیل بن کر اس سے کمیشن لیں یہ بھی دھوکہ نہیں بنے گا نیز ذاتی سم سے پیسے بھیجنے کی روزانہ کی حد چونکہ بہت محدود ہوتی ہے اس لیے ریٹیلر سم بھی استعمال ہو رہی ہوتی ہے ایسا نہیں کہ صرف ذاتی سم ہی استعمال ہو نیز جس صورت میں ذاتی سم استعمال کر کے مثلا جاز کیش کرتا ہے تو ایسا نہیں کہ جاز کیش کو اس میں بالکل ہی فائدہ نہ ہو بلکہ ذاتی اکاؤنٹ بھی چونکہ اسی کمپنی کا ہی ہوتا ہے اور جاز کیش کے ان پیسوں سے اور ہر ٹرانزیکشن سے پہلے سے ہی بہت سے فائدے ہو رہے ہوتے ہیں۔
(3-2) مذکورہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں ۔
توجیہ : مذکورہ دونوں صورتوں کی اصل یہ ہے کہ دکاندار گاہک کو قرض دیتا ہے جس کے عوض بعد میں اضافی پیسے لیتا ہے جو کہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائزہے ۔نیز مذکورہ صورت کو اس پر بھی محمول نہیں کرسکتے کہ یہ زائد پیسے دکاندار کی اجرت ہے کہ جس طرح دکاندار عام گاہکوں سے جو کہ نقد پیسے دے کر اکاؤنٹ میں پیسے بھجواتے یا منگواتے ہیں ان سے اپنے سروس چارجز لیتا ہے اسی طرح یہاں بھی کل لی جانے والی رقم اجرت ہی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ادھار کی صورت میں زائد رقم سروس چارجز سے الگ اور زائد لی جاتی ہے جو صرف ادھار ہی کہ بنیاد پر لی جاتی ہے اس لیے اگر اس کو اجرت پر محمول کر بھی لیں تب بھی یہ سود کا حیلہ ہونے کی بنا پر مکروہ بنے گی جیسا کہ بدائع کے حوالہ سے معلوم ہوتا ہے ۔
شامی(3/156) میں ہے:
والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل
شامی(6/63) میں ہے:
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.
بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع(5/ 192) میں ہے:
«وكذا روي عن محمد أنه قال: إذا باع الدراهم بالدراهم، وفي أحدهما فضل من حيث الوزن، وفي الجانب الذي لا فضل فيه فلوس فهو جائز في الحكم، ولكني أكرهه، فقيل: كيف تجده في قلبك؟ قال: أجده مثل الجبل والحاصل أنه ينظر إلى ما يقابل الزيادة من حيث الوزن من خلاف الجنس، إن بلغت قيمته قيمة الزيادة، أو كانت أقل منها مما يتغابن الناس فيه عادة جاز البيع من غير كراهة، وإن كانت شيئا قليل القيمة كفلس وجوزة ونحو ذلك يجوز مع الكراهة، وإن كان شيئا لا قيمة له أصلا ككف من تراب ونحوه لا يجوز البيع أصلا؛ لأن الزيادة لا يقابلها عوض فيتحقق الربا»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved