• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک بندہ کی امامت ہو اوروہ فوت ہوگیا تو رقم ورثاء میں شرعی حصوں کےبقدر تقسیم ہوگی

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم جناب مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ان کی امانت تقریبا ایک لاکھ نوے ہزار میرے پاس رکھی ہوئی ہے اور اس کے بارے میں اس نے کوئی وصیت وغیرہ نہیں کی۔ اس کے ورثاء میں اس کی ایک بیٹی تین بھائی دو بہنیں موجود ہیں۔ اور اس کا ایک بھائی غائب ہے جس کا کوئی پتہ نہیں ہے اس کی بیوی اور والدین کا انتقال ہوچکا ہے اب اس رقم کا مالک کون ہے اس کی بیٹی یا اس کے بہن بھائی۔ اس کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔ اور نیز یہ بھی بتادیں جو بھائی غائب ہے اس کا حصہ کس  کو دینا ہے؟     (سائل محمد وسیم)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں190000(ایک لاکھ نوے ہزار) کے 16حصے کریں گے جس میں سے 8 حصے یعنی95 ہزار روپے بیٹی کو ملیں گے اور ہر بھائی کو 2 حصے یعنی 23750 روپے ملیں گے اور ہر بہن کو ایک حصہ یعنی11875 روپے ملیں گے۔ البتہ جو بھائی غائب ہے اس کا حصہ محفوظ کرکے رکھیں گے اگر غائب بھائی ان کے ہم عمر لوگوں کے مرنے سے پہلے آجائے تو ان کا حصہ ان کو دے دیا جائے گا،اور اگر وہ ان کے ہم عمر لوگوں کے مرنے تک واپس نہ آئے تو بھائی کے وفات کے وقت جو ورثاء موجود تھے ان کو یا ان کے ورثاء کوان کے شرعی حصوں کے بقدر دے دیا جائے گا۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

2×8=16

بیٹی———–                         تین بھائی———-                                     2بہنیں

1/2————-                                            عصبہ

1×8                                       1×8

8                                                  8

————                             حصے2فی بھائی————                  حصے1فی بہن

فی السراجی:55,57

المفقود حي في ماله حتى لا يرث منه أحد وميت في مال غيره حتى لا يرث من أحد ويوقف ماله حتى يصح موته او تمضى عليه مدة ففي ظاهر الرواية أنه إذا لم

يبق أحد من أقرانه حكم بموته.

وفي حاشيته تحت قوله:(ويوقف ماله…الخ)لما كان قوله فيما سبق "لا يرث من احد” يوهم نفي توريث المفقود اصلا فسره بقوله: ويوقف…الخ اي يبقى حظه موقوفا الى ان تيقن بموته او تمضي عليه مدة.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved