• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک بھائی اور دو بہنوں نے اپنا وراثتی حق دوسرے بھائی کو ہبہ کردیا

استفتاء

حضرات مفتیان کرام! میرا سوال یہ ہے کہ ہم پانچ بہن بھائی ہیں،  والد صاحب فوت ہوگئے ہیں، وراثت میں ان کا ایک گھر ہے، وفات کے بعد ایک میٹنگ میں  میراث کی بات چلی تو ایک بھائی نے اور دو بہنوں نے کہہ دیا کہ ہم نے اپنا جو حق ہے آپ کو دیدیا، یہ اس لیے کہا کہ ان سب کے اپنے اپنے گھر ہیں  تو میری حالت کو دیکھتے ہوئے یہ ہبہ کیا ، اس ہبہ کرنے سے گھر میں میرا حصہ 75 فیصد ہوگیا ۔ سوال یہ ہے کہ  اس عمل/الفاظ سے شرعاً میں اس کا مالک بن گیا ہوں؟ حتی کہ اگر یہ گھر بیچا جائے تو کیا اس کی قیمت فروخت کا 75 فیصد حصہ مجھے ملے گا؟

وضاحت مطلوب ہے: (1)آپ کے والد کے والدین یا بیوی میں سے کوئی والد  کی وفات کے وقت زندہ تھا؟(2) پانچ بہن بھائیوں میں سے کتنے بھائی اور کتنی بہنیں ہیں؟(3) جن بھائی، بہنوں نے اپنا حق آپ کو دیا ہے ان سے تصدیق کے لیے ان کے تحریری بیانات مع دستخط ارسال کریں۔(4)اگر آپ کی والدہ زندہ ہیں تو کیا والدہ نے بھی اپنا حصہ آپ کو دیدیا تھا؟

جواب وضاحت:(1)ان کے والدین تو پہلے ہی فوت ہوگئے تھے البتہ بیوی یعنی میری والدہ زندہ ہیں۔(2) کل تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔(3) یہ بات اس لیے قابلِ شک نہیں کہ کسی نے اس پر شک نہیں کیا کیونکہ سب بہن بھائی موجود تھے اس میٹنگ  میں، میں صرف جاننا چاہتا ہوں از روئے شرع کہ ان کے زبانی دے دینے سے اب ان کے حصوں کا مالک ہوں یا نہیں؟ (4)سائل نے جواب نہیں دیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کا اس وراثتی گھرمیں شرعاً 21.87 فیصد حصہ تو اپنا ہے۔ پھر واقعتاً آپ کے ایک بھائی اور دو بہنوں نے اگر یہ کہہ کر کہ’’ہم نے اپنا حق آپ کو  دیدیا‘‘ اپنا حصہ آپ کو ہبہ کر دیا ہے تو آپ ان کے حصوں کے بھی مالک ہوگئے  اس اعتبار سے ان کے حصے ملا کر آپ کا اس گھر میں 65.61 فیصد حصہ ہوگیا۔ جو باقی ہے اس میں سے 12.5 فیصد آپ کی والد ہ کا ہے اور 21.87 فیصد آپ کے دوسرے بھائی کا ہے۔

مذکورہ صورت میں 1بھائی، 2بہنوں کا ہبہ کرنا اگر چہ ہبۃ المشاع (مشترکہ چیز کو ہبہ کرنا) ہے جو کہ فاسد ہے لیکن ایک روایت جس پر بعض علماء نے فتویٰ بھی دیا ہے یہ ہے کہ ہبۃ المشاع اس وقت فاسد ہوتا ہے جب اجنبی (جو خود شریک نہ ہو) کو کیا جائے، لہٰذا جو جائداد میں شریک ہو اس کو تقسیم کے بغیر بھی ہبہ کرنا صحیح ہے اس لیے مذکورہ صورت میں 1بھائی، 2بہنوں کا ہبہ کرنا درست ہوگیا۔

در مختار (8/ 576) میں ہے:

’’لا تتم الهبة بالقبض فيما يقسم و لو وهبه لشريكه أو لأجنبي ………. و في الصيرفية عن العتابي و قيل يجوز لشريكه و هو المختار‘‘

امداد الاحکام (4/38) میں  ہے:

’’غالباً آج کل تقسیم جائیداد میں جس قدر خرچ اور پریشانی ہوتی ہے وہ مجبوری اور دشواری کی حد میں داخل ہے س لیے ۔۔ اگر اس روایت پر عمل کر کے شریک کے لیے ہبہ دون تقسیم کے صحیح کہا جائے تو گنجائش ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved