- فتوی نمبر: 7-190
- تاریخ: 06 جنوری 2015
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
فریقِ اول کے پاس کرایہ کی دکان عرصہ 21 سال سے ہے، اب اس دکان میں نیا کاروبار شروع کیا جا رہا ہے، دکان کی موجودہ قدر 25
لاکھ روپے ایڈوانس اور 25000 روپے کرایہ ہے، لیکن پرانا کرایہ دار ہونے کی وجہ سے اس دکان کا کرایہ 5200 روپے ادا کیا جاتا ہے۔
آج کل مارکیٹ کا عام رواج یہ ہے کہ دکاندار کے ذمہ تمام اخراجات ہوتے ہیں جبکہ دکان میں مال لگانے والا دکان کی قدر کے بقدر مال بنا کر دیتا ہے، اس طرح دونوں فریق کاروبار میں نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت کرتے ہیں۔ اب یہ فریق اول اور یہ مال لگانے والا فریقِ ثانی آپس میں مذکورہ بالا طریقے پر کاروبار کرنا چاہتے ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ فریق اول کے ذمہ دکان کے تمام اخراجات ہوں گے مثلاً دکان کا کرایہ، ملازمین کی تنخواہ، بجلی کا بل، روز مرہ کے اخراجات جبکہ مال کے باردرانہ کا خرچہ اس میں شامل نہیں۔
2۔ فریقِ ثانی مال تیار کر کے دکان پر پہنچائے گا اور مال کی NET COST مقرر کرے گا جس میں اس کا منافع شامل نہیں ہو گا۔
3۔ مال کے دکان پر پہنچنے کے بعد دونوں فریق مال کی قیمت فروخت مشورے سے طے کریں گے۔
4۔ قیمتِ فروخت یعنی جس قیمت میں مال فروخت ہو گا اس میں سے کاسٹ منہا کر کے جو منافع ہو گا وہ دونوں فریقوں میں آدھا آدھا تقسیم ہو گا۔
5۔ اور اسی طرح اگر کسی وجہ سے دونوں فریق یہ طے کر لیں کہ مال کو کاسٹ سے کم میں فروخت کر دینا چاہیے تو جو نقصان کا فرق ہو گا وہ بھی آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا۔
6۔ فریقِ ثانی دکان پر بیٹھنے کا پابند نہیں۔
7۔ فریقِ ثانی کو ضرورت کے مطابق دکان پر بیٹھنے کی اجازت ہو گی۔
8۔ مال کی دستیابی فریق ثانی کی ذمہ داری ہو گی، چاہے اپنی فیکٹری میں تیار کرے یا بازار سے لے کر دے۔
9۔ نفع و نقصان کی تقسیم روز مرہ کی بنیاد پر کی جائیں گی، نفع و نقصان کی تقسیم فریقِ ثانی کو نٹ کاسٹ کے ساتھ کی جائی گی۔
10۔ مدت معاہدہ فتویٰ کی تاریخ سے شمار کر کے 11 ماہ ہو گی جو فریقین کی رضا مندی سے قابل تجدید ہو گی۔
11۔ ادھار فروخت کیے گئے مال کے بل کی وصولی کی ذمہ داری فریقِ ثانی کی ہو گی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس کے بجائے یوں کریں کہ فریق ثانی فریق اول کو اپنا مال ادھار فروخت کر دے، ادھار کی مدت اور مال کی قیمت آپس میں طے کر لیں، جوں جوں فریق ثانی کو قیمت ملتی جائے وہ اور مال فریق اول کے ہاتھ فروخت کر دے۔ اس صورت میں میں دونوں فریق بکھیڑوں سے بچ جائیں گے، سامان پورے پچیس لاکھ کا یکدم حوالے نہ کریں اور ہو سکے تو فریق اول سے کچھ مال یا جائیداد بطور گروی رکھ لے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved