• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک مسجد کے ہوتے ہوئے اس کے قریب دوسری مسجد بنا کر اس میں جمعہ پڑھنا

استفتاء

ہم جہاں جمعہ پڑھتے تھے وہاں کی  مسجد  کی انتظامیہ نے عالم کو تبدیل کر دیا لیکن عالم مسجد نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور بات پولیس تک جا پہنچی  اب عالم نے ضد میں آکر اس مسجد کے ساتھ ہی دوسری مسجد بنانا شروع کر دی ۔اب سوال یہ ہے کہ :

(1)جو نئی مسجد بن رہی ہے اس کو  نفلی صدقہ دینا کیسا ہے؟

(2)نئی مسجد میں جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ دونوں مسجدوں کے درمیان  تقریباً کتنا فاصلہ ہے؟

جواب وضاحت : آدھا کلومیٹر سے بھی کم ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1۔2) مذکورہ مسجد میں نفلی صدقہ دینا  درست ہے اور اگر وہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو تو جمعہ پڑھنا بھی درست ہے البتہ اگر دوسری مسجد بنانے والے نے محض ضد کی وجہ سے  دوسری مسجد بنائی ہے تو بنانے والے پر اس کا گناہ ہو گا۔

امداد الفتاویٰ(648/2) میں ہے:

الجواب: جس مسجد ضرار کا ذکرقرآ ن مجید میں ہے وہ وہ ہے جس کی نسبت قطعی دلیل سے ثابت ہے کہ وہاں مسجد ہی بنانے کی نیت نہ تھی محض صورت مسجدا ضرار اسلام کے نیت سے بنائی تھی سو جس مسجد کا بانی دعویٰ نیت بناء مسجد کا کرے اور کوئی قطعی دلیل اس کی مکذب نہ ہو اس کو مسجد ضرار کیسے کہا جا سکتا ہے ورنہ لازم آتاہے کہ ایسی مسجد کے انہدام اور اُس میں القاء کناسہ کو جائز کہا جائے ’’لان الشیٔ إذا ثبت ثبت بلوازمه‘‘اور اس کا کوئی قائل نہیں پس ثابت ہوا کہ ایسی مساجد مسجد ضرار میں تو داخل نہیں ,البتہ خود یہ قاعدہ مقر رہے کہ اگر طاعت میں غرض معصیت ہو جیسے مسجد بنانے میں غرض تعصب اور تفریق مقصود ہو تواُس فعل میں عاصی ہو گا  لیکن مسجد مسجد ہی ہو گی مع اپنے جمیع احکام لازمہ کے، باقی اس نیت کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے دوسروں کو اس پر حکم جازم لگا نا جائز نہیں ۔    

فتاویٰ عثمانی (515/2) میں ہے:

سوال:۔ حکومت برطانیہ کے دور میں یہاں ایک مسجد آباد تھی ، جب ہندو مشن کرکے چلے گئے اور مسلمان بھی وہاں ختم ہوگئے تو ایک صاحب نے اس مسجد کو دور کے گاؤں والوں کو  دے دیا ، پھر ہندوستان سے یہاں آکر آباد ہوگئے اور انہوں نے ایک اور مسجد بنوادی جس میں جمعہ وغیرہ ہوتا ہے ۔ حال ہی میں ایک بی ڈی ممبر نے ایک تیسری مسجدقائم کردی ، چند دنوں سے اس میں نماز بھی ہورہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے مسجد ثانی کو نابود کیا جائے ۔ سابق مسجد (یعنی سب سے پہلی مسجد) کے متولی کی خواہش ہے کہ اسی سابق مسجد کی جگہ نئی مسجد قائم کی جائے اور وہاں نماز پڑھا کریں کیونکہ ثانی مسجد کے آس پاس صرف چھ ،سات آدمی رہتے ہیں ، وہ لوگ اس مسجد میں بھی چل کر آسکتے ہیں ۔ اب عرض یہ ہے کہ :           

۱:۔سابق مسجد جو برطانیہ کے دور میں آباد تھی اس کو آباد کیا جائے ؟        

۲:۔ دوسری مسجد کو کیا کیا جائے ؟۳:۔تیسری مسجد ضرار ہے ؟۴:۔ سابقہ مسجد کے ٹین جو دوسری مسجد میں دیئے گئے ہیں ان  کا کیا کیا جائے ؟

الجواب:…… ۳: تیسری مسجد بھی تمام احکام میں مسجد ہے ، اس میں نماز پڑھنا جائز ہے ، البتہ اگر بنانے والوں نے واقعۃً ضد کی وجہ سے بنائی ہے اور اس سے دوسری مسجد کو ویران کرنا مقصود ہے تو بنانے والوں پر اس کا گناہ ہوگا، اس صورت میں بھی اس کو مسجد ضرار تو نہیں کہہ سکتے مگر ضدکی وجہ سے اس کے مشابہ ہوگی ، لیکن اس سے اس کی مسجدیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved