- فتوی نمبر: 5-64
- تاریخ: 15 مئی 2012
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دریں مسئلہ کہ متصلہ مضاربت نامہ میں شرعی اصول و ضوابط کی مکمل رعایت ہے یا کہ نہیں؟
تحقیق طلب امر یہ ہے کہ جو جو قابل اصلاح صورت ہو اس کی نشاندہی زیادہ کیجئے۔
اصول و ضوابط
1۔ کمپنی لوگوں سے مضاربت پر رقم لیتی ہے اور کمپنی تین مضاربین پر مشتمل ہے، جن میں سے ایک مضارب خرید و فروخت کرتا ہے اور وہ مضارب کمپنی کے حساب و کتاب ، ارباب الاموال سے رقم کی وصولی اور انتظامی و دفتری امور سر انجام دیتے ہیں۔
2۔ کمپنی صر ف جائز اشیاء کی خرید و فروخت کرتی ہے۔
3۔ کمپنی تمام تجارتی معاملات شرعی اصولوں کے مطابق کرنے کی پابند ہے۔ بیع قبل القبض وغیرہ سے احتراز کرتی ہے۔
مضاربین اس طرح کے معاملات فاسدہ سے واقف ہیں اور معاملات آپس میں مشورہ سے کرتے ہیں، اگر تجارت کی نئی یا پیچیدہ صورت پیش آتی ہے تو مستند دارالافتاء سے رجوع کرتے ہیں۔
4۔ مضاربین نے بھی ذاتی رقم کمپنی میں شامل کی ہے اور اس کی بنیاد شرکت پر ہے نفع و نقصان کی تفصیل اصول نمبر 10 میں ملاحظہ ہو۔
5۔ کمپنی کے پاس جامد اثاثے موجود نہیں ہیں۔ سرمایہ نقد صورت میں ہے یا مال تجارت کی صورت میں ۔ مال تجارت جن گوداموں میں رکھا جاتا ہے کمپنی مشترکہ کاروبار سے اس کا کرایہ ادا کرتی ہے۔ کمپنی ارباب الاموال کی رقوم سے جامد اثاثے ہرگز نہ خریدےگی۔ اگر جامد اثاثوں مثلا گاڑی مکان وغیرہ کی ضرورت پڑی تو مضاربین اپنی ذاتی رقم سے اپنے لیے جامد اثاثے خریدیں گے اور کمپنی کے لیے استعمال کی صورت میں مضاربین مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ وصول کریں گے۔ اور مضاربت کا معاملہ س سے مشروط نہیں ہے۔
6۔ کمپنی مہینہ میں صرف ایک بار 5 تاریخ کو لوگوں سے سرمایہ وصول کر کے کاروبار میں شامل کرتی ہے اور آئندہ 5 تاریخ کو حساب و کتاب کر کے نفع دیتی ہے۔ درمیان کی تاریخوں میں رقم پول میں شامل نہیں کرتی، لہذا مقررہ تاریخ تک رقم جمع کرائی جائے، اگر کوئی رب المال درمیانی تاریخ میں رقم جمع کرائے تو کمپنی وصول کرنے کی پابند نہیں اور نہ کمپنی رب المال سے اس رقم کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن اگر رب المال اپنی مرضی سے جمع کراتا ہے تو اس کی رقم آئندہ 5 تاریخ: تک کمپنی کے پاس امانت ہوگی اور اس میں بلا اجازت کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جائے گا۔
7۔ کمپنی ہر ماہ کی 5 تاریخ تک نفع تقسیم کرتی ہے اور اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے کمپنی کے بلاواسطہ اخراجات کو منہا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگرمال تجارت موجود ہو تو اس دن مارکیٹ میں ویلیو کے مطابق اس کی قیمت فروخت لگا کر نفع معلوم کیا جاتا ہے۔
8۔ کمپنی ہر ماہ منافع تقسیم کرتی ہے کسی رب المال کا نفع راس المال کے ساتھ شامل نہیں کرتی، مثلاً خالد نے ایک لاکھ روپیہ بطور مضاربت لگایا ہے اور اسے ماہانہ 5 ہزار روپیہ ملا تو نفع اس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ نفع راس المال میں شامل کر کے راس المال ایک لاکھ پانچ ہزار بن جائے گا۔ بلکہ اگر وہ نفع کمپنی میں راس المال کے طور پر رکھنا چاہے تو نفع لے کر رکھ لے جب پچاس ہزار بن جائے توگذشتہ معاہدہ میں ترمیم کر کے راس المال بڑھا دے۔
9۔ جو رب المال اپنی رقم نکلوا کر معاملہ ختم کر دے گا۔ آئندہ کے نفع و نقصانات سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے گا۔
10۔چونکہ مضاربین نے اپنی رقم بھی لگائی ہوتی ہے لہذا وہ اپنی رقم کے منافع طے شدہ اصولوں کے مطابق لیں گے ۔ اور لگائی ہوئی رقم کی حد تک اس کے تناسب سے ان کا نقصان بھی ہوگا۔
11۔ راس المال مضارب کے پاس امانت ہوتا ہے اگر اس کی تعدی کے بغیر ضائع ہوا تو اس پر ضمان نہیں آئے گی، لیکن اگر مضارب نے تعدی کی ہو تو وہ ضامن ہوگا۔
12۔کمپنی شرعی اصول کے مطابق ارباب الاموال سے نفع کی شرح مختلف رکھ سکتی ہے لیکن اگر نقصان ہوتا ہے تو شرعی مسئلہ کی رو سے مضارب کی محنت ضائع ہوگی اور رب المال کا سرمایہ ، لیکن اگر رب المال اور مضارب پہلے منافع لے چکے ہیں تو خسارہ ان سے پورا کیا جائےگا کیونکہ مضاربت ابھی ختم نہیں ہوئی اور حتمی نفع و نقصان کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ حتمی فیصلہ مدت معاہدہ ختم ہونے پر ہوگا، اگر تقسیم شدہ نفع بھی خسارہ پورا نہ کر سکے تو رب المال کا سرمایہ ضائع ہوگا اور مضارب کی محنت۔
13۔کمپنی اس بات کی پابند ہے کہ وقت عقد سے مدت معاہدہ ختم ہونے تک راس المال ، نئے آنے والے ارباب الاموال، آنے کی تاریخ اور ان میں اور مضاربین میں ماہ بماہ جو منافع تقسیم ہوتے ہیں ان کا پورا ریکارڈ محفوظ رکھے گی۔
14۔رب المال کسی بھی مضارب کے پاس خود رقم جمع کراسکتا ہے اور رب المال خود جا کر مضارب سے اپنا ماہانہ نفع وصول کرے گا، مضارب اس کے گھر پہنچانے کا پابند نہیں ہے، اگر کوئی رب المال خود مضارب کے پاس جمع نہیں کراسکتا یا ماہانہ نفع لینے نہیں آسکتا تو وہ اپنے لیے وکیل بالاجرة مقرر کر سکتا ہے۔ رب المال اپنی طرف سے اس کو اجرت دے گا اس کا مضاربت سے کوئی تعلق نہ ہوگا، اسی طرح اگر کوئی شخص از خود لوگوں سے رقوم جمع کر کے مضارب کے پاس بطور وکیل جمع کرائے اور اپنے مؤکل کی طرف سے مضاربت نامہ پر کرے تو درست ہے لیکن وہ اجرت کا مطالبہ اپنے مؤکل سے کرے گا اور اسی اجرت کا مؤکل وکیل کے لیے معلوم و متعین ہونا بھی ضروری ہے لیکن اس کا کمپنی کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ لہذا اگر وکالت کے معاملہ میں کوئی جہالت ہوتو اس کا کمپنی کے کاروبار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اور اسی طرح مضارب کسی کو اپنا وکیل مقرر کر کے بعض ذمہ داریاں اس کے ذمہ لگا سکتا ہے اور اس کی اجرت باہمی رضامندی سے طے ہوگی، مضارب اجرت اپنی طرف سے ادا کرے گا کمپنی یا رب المال کے حصہ سے نہیں، نیز اجرت راس المال کے تناسب سے بھی مقرر کی جاسکتی ہے مثلاً ہر لاکھ پر پانچ سو روپیہ۔
15۔کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ 5 تاریخ تک اصل سرمایہ اور نفع کا حساب کر لیا جائے اور اس میں سے نفع علیحدہ کر کے تقسیم کر دیا جائے لیکن ہر مرتبہ ایسا ہونا ضروری نہیں، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سامان تجارت کی قیمت لگا کر حساب کر لیا جائے اور ارباب الاموال کا جو نفع بنتا ہے اس کی ادائیگی 5 تاریخ تک جن نئے ارباب الاموال نے رقوم جمع کی ہیں ان سے کر دی جائے۔ نئی رقوم چونکہ مضاربت کے پول میں شامل ہوکر کاروبار کا حصہ بن چکی ہیں، لہذا وہی رقوم بھی پرانے ارباب الاموال کو بطور نفع دی جاسکتی ہیں۔
16۔کمپنی حقیقی منافع ہی تقسیم کرتی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ کسی مہینہ نفع بالکل نہ آئے، اگر آئے تو وہ کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔
غرضیکہ جتنا نفع آئے کمپنی انتا ہی نفع دے گی اپنی طرف سے تبرعاً زیادہ نہ دے گی۔
17۔کمپنی کی مدت مضاربت 31 دسمبر تک ہے ، اس کے بعد نیا معاہدہ کیا جائے گا، اگر کوئی اس سے پہلے اپنی رقم نکلواناچاہے تو نکلوا سکتا ہے۔ کمپنی اس بات کی بھر پور کوشش کرے گی کہ رب المال نے جس تاریخ کو مضاربت ختم کرنے کا نوٹس دیا ہے اس کے بعد آنے والی 5 تاریخ تک اس کی رقم مع منافع دے دے ۔
لیکن اگر 5 تاریخ تک رقم نہ دی جاسکتی ہو تو آئندہ 5 تاریخ تک رقم دے دی جائے گی، اور جب تک رب المال کی رقم واپس نہیں ملتی اس کی رقم کاروبار میں استعمال ہوتی رہے گی اور نفع بھی ملتا رہے گا، اگر رقم زیادہ ہو تو اس کے ملنے میں زیادہ مہینے بھی لگ سکتے ہیں لیکن منافع بھی ملتے رہیں گے۔
18۔کمپنی پچاس ہزار روپے سے کم رقم مضاربت میں نہیں لگاتی۔
19۔راس المال کی کمی بیشی کے اعتبار سے کمپنی شرح نفع کم و بیش رکھ سکتی ہے، مثلاً ایک رب المال نے لاکھ روپے کا سرمایہ دیا اور دوسرے نے پچاس لاکھ کا، تو کمپنی شرعاً پہلے رب المال کو بیس فیصد اور دوسرے کو پچیس یا تیس فیصد دینا آپس میں طے کر لے تو ایسا ہو سکتا ہے شرعاً بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
20۔رب المال یا مضارب کے انتقال کی صورت میں مضاربت ختم ہوجائے گی، اگر مرحوم کا وصی یا وارث کاروبار جاری رکھنا چاہتا ہے تو تجدید عقد ضروری ہے۔
21۔مضاربین کی آپس میں شرکت عنا ن ہوتی ہے جبکہ ارباب الاموال کے ساتھ ان کا عقد مضاربہ ہوتا ہے اور خود ارباب الاموال کی آپس میں شرکت عنان ہوگی ہے۔ لہذا ان کے درمیان شرکت عنان کے احکام کا معاملہ ہوگا۔
22۔ چونکہ ارباب الاموال کے لیے ہر معاملہ کی نوعیت معلوم کرنا مشکل ہے ۔ لہذا اگر کوئی معاملہ خلاف شرع ہوا تو مضاربین ہی اللہ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔
23۔مضاربت کے ضروری اصول و ضوابط تحریر کردیے ہیں اگر کوئی اصول لکھنے سے رہ گیا ہو اور آئندہ اس پرعمل کی نوبت آئے تو اس بارے میں قرآن وسنت اور فقہ حنفی کے اصول مضاربت کے مطابق فیصلہ ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
منسلکہ مضاربت نامے میں چند امور قابل اصلاح ہیں:
امر اول:
شق نمبر 5 میں لکھا ہے کہ مضاربین اپنی ذاتی رقم سے اپنے لیے جامد اثاثے خریدیں گے اور کمپنی کے لیے استعمال کی صورت میں مضاربین مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ وصول کریں گے۔
تبصرہ:
مضاربین ارباب الاموال کے وکیل ہوتے ہیں وکیل اپنی ملکیتی گاڑی اپنے لیے کرایہ پر لے یہ درست نہیں۔ مضاربین کی کمپنی اس کا غیر نہیں ہے۔ کیونکہ کمپنی تو ایک اعتباری شے ہے جس کو متولی چلاتا ہے۔
امر ثانی :
شق نمبر 12 میں لکھا ہے اگر رب المال اور مضارب پہلے منافع لے چکے ہیں تو خسارہ ان سے پورا کیا جائے گا۔ کیونکہ مضاربت ابھی ختم نہیں ہوئی اور حتمی نفع و نقصان کا فیصلہ بھی نہیں ہوا۔ حتمی فیصلہ مدت ختم ہونے پر ہوگا۔
پھر شق نمبر 16 میں لکھا ہے کہ کمپنی حقیقی منافع ہی تقسیم کر تی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ کسی مہینہ بالکل نفع نہ آئے۔ اگر آئے تو وہ کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی ۔ غرضیکہ جتنا نفع آئے کمپنی اتنا ہی نفع دے گی اپنی طرف سے تبرعاً زیادہ نہ دے گی۔
اور شق نمبر 15 میں ہے کہ کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ 5 تاریخ تک اصل سرمایہ اور نفع کا حساب کر لیا جائے اور اس میں نفع علیحدہ کر کے تقسیم کر دیا جائے لیکن ہر مرتبہ ایسا ہونا ضروری نہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سامان تجارت کی قیمت لگا کر حساب کر لیا جائے اور ارباب الاموال کا جو نفع بنتا ہے اس کی ادائیگی 5 تاریخ تک جن نئے ارباب الاموال نے رقوم جمع کی ہیں ان سے کر دی جائے۔
تبصرہ:
جب شق نمبر 15 اور 16 کے مطابق ہر مہینے اصل سرمایہ اور نفع کا حساب کر کے حقیقی نفع ہی تقسیم کیا جاتا ہے تو گویا یہ مضاربت ہر مہینے اختتام پذیر ہو کر از نو شروع ہوتی ہے اور سال پورا ہونے پر نقصان کا احتمال باقی نہیں رہتا۔ اس لیے مضاربت نامہ میں شق نمبر 12 بیکار قرار پاتی ہے۔ اور اگر اس تقسیم شدہ نفع کو حقیقی نفع قرار نہ دیا جائے بلکہ صرف ایک تخمینی نفع قرار دیا جائے تو اوّلاً شق نمبر 6 میں اس کو حقیقی نفع کہنا درست نہیں اور ثانیاً ایسی صورت میں دوران سال دیگر ارباب الاموال سے سرمایہ حاصل کرنا درست نہ ہوگا۔ جبکہ یہاں دوران سال بھی ہر ماہ سرمایہ وصول کیا جاتا ہے۔
امر ثالث:
شق نمبر 21 میں لکھا ہے کہ خود ارباب الاموال کی آپس میں شرکت عنان ہوتی ہے لہذا ان کے درمیان شرکت عنان کے احکام کے مطابق معاملہ ہوگا۔
تبصرہ:
حالانکہ ارباب الاموال کے درمیان شرکت املاک ہے، نہ کہ شرکت عنان کیونکہ شرکت عنان عقد کی قسم ہے اور ارباب الاموال مضاربین یعنی کمپنی سے تو عقد مضاربت کرتے ہیں لیکن آپس میں ایک رب المال دوسرے رب المال سے کوئی عقد نہیں کرتا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved