- فتوی نمبر: 12-203
- تاریخ: 26 جولائی 2018
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
زید اور بکر نے 8 لاکھ ملا کر 16 لاکھ کی گاڑی خریدی، گاڑی زید کے استعمال میں رہے گی، جس کا کرایہ 15 ہزار روپے وہ بکر کو دے گا، جب زید کے پاس 8 لاکھ روپے ہو جائیں گے وہ بکر کو دے گا اور گاڑی کا مکمل مالک بن جائے گا۔ دوران تجارت اگر گاڑی کو کوئی نقصان ہوا تو دونوں برابر بھریں گے۔
کیا یہ طریقہ درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت شریک فی الملک کو اپنا حصہ کرایہ پر دینے کی ہے لہذا اس میں یہ بات کہ ’’جب زید کے پاس 8 لاکھ روپے ہو جائیں گے وہ بکر کو دے گا اور گاڑی کا مکمل مالک بن جائے گا‘‘ درست نہیں۔ درست طریقہ یہ ہے کہ اس وقت گاڑی کی قیمت لگوائی جائے اور جو قیمت لگے اس کا نصف دے کر زید بکر سے گاڑی خرید لے خواہ و ہ نصف 8 لاکھ سے کم ہو ورنہ اس میں سود کا شبہ ہو گا۔ نیز چونکہ گاڑی زید کے پاس کرائے پر ہے لہذا جو نقصان زید کی غفلت اور کوتاہی کے بغیر ہو گا اس میں تو ہر شریک اپنے حصے کے بقدر نقصان کا ذمہ دار ہو گا لیکن جو نقصان زید کی غفلت اور کوتاہی سے ہو گا اس کا ذمہ دار صرف زید ہوگا
© Copyright 2024, All Rights Reserved